• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاض کانفرنس :پاکستان کی غیر جانبدار رہنے کی کوشش کو امتحان میں ڈال دیا

کراچی (ٹی وی رپورٹ) پاناما کیس پر بنائی گئی جے آئی ٹی کمیٹی نے دو ہفتے بعد اپنی پہلی رپورٹ سپریم کورٹ کی خصوصی بنچ کو پیش کردی ہے جس میں اب تک ہونے والی تحقیقات کی تفصیلات بتائی گئی ہیں ۔ سپریم کورٹ کے خصوصی بنچ نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا پر واضح کردیا کہ وہ 60دن کی مقررہ مدت میں اپنا کام مکمل کریں ، اس ہدایت کے بعد پاناما کیس معاملہ کے طول پکڑنے کے خدشات دم توڑتے نظر آرہے ہیں،ریاض کانفرنس نے پاکستان کی غیر جانبدار رہنے کی کوشش کو امتحان میں ڈال دیا ہے،خدیجہ صدیقی کیس کی ٹرائل کورٹ میں سماعت ہوئی ، وزیراعلیٰ پنجاب نے ہم سے رابطہ کرکے کہا ہے کہ وہ خدیجہ صدیقی کو ہر ممکن مدد فراہم کریں گے ۔ان خیالات کا اظہار جیو کے پروگرام’’ آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ میزبان شاہ زیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ عام کرنے کی استدعا کی گئی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کوئی فوجداری مقدمہ بتادیں جس میں دستاویزات دی گئی ہوں ،ہم شہرت کے لئے قانون نہیں بیچتے ۔ اس حوالے سے ن لیگ کی جانب سے جو میڈیا گفتگو کی گئی اس میں واضح فرق نظر آیا پہلے کہا جاتا تھا مکمل کام ہوگا ، تعاون ہوگا ۔ طلال چوہدری کا جو کہنا تھا وہ ماضی کے برعکس تھا ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے تو اپنے قانونی حقوق پاناما کیس میں استعمال نہیں کئے لیکن جے آئی ٹی میں وہ انہیں استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں ۔ کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ میاں صاحب ان کے بچے جن چیزوں کے پابند نہیں ان کا جواب نہیں دیا جائے گا ۔ کیا جن قانونی سہاروں کو نہ لینے پر ن لیگ فخریہ بات کرتی تھی اب جے آئی ٹی میں ان قانونی سہاروں کو لے گی ۔ کیا حسین نواز یہ سارا کا سارا لکھ کر دیں گے کہ میری طرف سے جو بھی اطلاعات ہیں وہ فراہم کردی جائیں ۔میاں صاحب اوران کے بچے تو کہیں کہ ہم اپنی طرف سے پوری اطلاعات فراہم کریں گے ۔جے آئی ٹی کو جن سوالات کے جوابات تلاش کرنے ہیں ان کے مطابق 80 کی دہائی میں اسٹیل مل کیسے بنی ، فروخت کیوں کی گئی ، اس کے ذمے واجبات کا کیا ہوا ،فروخت کے معاملات کیسے مکمل ہوئے ، دبئی سے سرمایہ جدہ ، جدہ سے قطر اور پھر لندن کیسے پہنچا ۔ حسین نواز اور حسن نواز کم عمری کے باوجود کیسے اتنے وسائل کے مالک بنے کہ لندن کے فلیٹ خریدے ۔ قطری خطوط حقیقت ہیں یا افسانہ ، نیلسن اور نیسکول کا حقیقی مالک کون ہے ۔ سرمایہ کہاں سے آیا جس سے حسن نواز نے کمپنیاں بنائیں ، وہ رقم کہاں سے آتی ہے جس سے حسن نواز نے اپنے والد کو کروڑوں روپے کے تحائف دیئے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ سارے سوالوں کے جواب نہ آئیں چند کے آجائیں اور اس کی بنیادوں پر ہی فیصلہ دیدیا جائے یا پھر جے آئی ٹی کو مزید ٹائم دینا پڑے گا ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے اپنے تجزیہ میں شاہ زیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ریاض میں پہلی امریکی ، عرب کانفرنس ہوگئی اوراس کانفرنس میں جو پوزیشن لی گئی ہے کیا وہ پاکستان کے لئے ، ایران کے لئے مسئلہ بن جائے گی اس کانفرنس نے واضح کردیا کہ عالمی سطح پر ایران کے خلاف محاذ بن رہا ہے ۔ سعودی عرب اور امریکا کا واضح پیغام ہے کہ ایران عالمی دہشت گردی کا مرکز ہے اور اس پیغام نے پاکستان کو مشکل صورتحال بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگاکہ پاکستان کی غیر جانبدار رہنے کی کوشش کو کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے ۔ پاکستان مسلسل یہ کہہ رہا ہے کہ وہ ایران مخالف کسی بھی سرگرمی کا حصہ نہیں ہوگا بلکہ دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد کے حوالے سے بھی ایرانی تحفظات کا خیال رکھنے کی یقین دہانیاں بھی کراتا رہا مگر اب ایک بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے امریکی صدر کا الزام ہے کہ ایران خطے میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے ،ایران کو تنہا کردینا چاہئے ۔ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان نے بھی ایران کو دہشت گردی کو فروغ دینے کا ذمہ دار قرار دیا ۔ اس سے پہلے واضح کیا گیا تھا کہ مسلم ممالک کا جو اتحاد بن رہا ہے جسے مسلم نیٹو کا نام دیا جارہا ہے وہ دہشت گردوں کے خلاف ہے ۔ پاکستانی وزیر دفاع اور وزارت خارجہ یہی بتاتی رہی کہ ایران کے خلاف ہونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں یہ دہشت گردوں کے خلاف ہے ۔ مگر سعودی فرمانرواں امریکی صدر کی تقریر کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتحاد ایران کے خلاف ہوگا یا دہشت گردی کے خلاف ۔ایران کا بھی اس پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے ۔ ایرانی صدر حسن روحانی پریس کانفرنس میں کہتے ہیں ریاض سربراہ کانفرنس کی حیثیت شو سے زیادہ نہیں تھی ، مشرق وسطیٰ میں استحکام ایران کے بغیر نہیں آسکتا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکی ہمارے خطے سے واقف نہیں اور امریکی حکام کو مشورہ دینے والے انہیں گمراہ کرتے ہیں ۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف ٹوئٹ کرتے ہیں کہ ایران نے استحکام حاصل کیا اپنے عوام سے جو ووٹ دیتے ہیں ۔ ایرانیوں کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ دونوں ممالک کے درمیان جاری لفظوں کی یہ جنگ کہیں مزید آگے بڑھ کر خطرناک صورت اختیار نہ کرلے ۔ اس حوالے سے پاکستان پر دوہری مصیبت کھڑی ہوگئی ہے ۔ ایران کا پہلے ہی پاکستان پر اس حوالے سے دباؤ تھا اب امریکا ، عرب کانفرنس کے بعد پاکستان پر اندرونی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے ۔ایسے موقع پر نہ ہی وزارت خارجہ اور نہ ہی وزارت دفاع دونوں کی جانب سے کوئی موقف سامنے نہیں آرہا ہے ۔ دونوں یہ بھی نہیں بتاپارہے کہ نواز شریف کو خطاب کرنا تھا نہیں کرنا تھا ، پوزیشن لینی تھی ، نہیں لینی تھی ۔ اس جانب مکمل خاموشی ہے ۔ پاکستان اس صورتحال سے کس طرح نمٹے گا ۔ پاکستان کی سعودی عرب اور امریکا کی جانب سے ایران مخالف بیان پر کیا پالیسی ہے کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے ۔ ایران بھی جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد پر تحفظ کا اظہار کرتا رہا ہے جبکہ راحیل شریف بھی اس کانفرنس میں سعودی وزیر دفاع ، ،سعودی نائب ولی عہد ،امریکی صدر کے داماد کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور یہ تصویر سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنی رہی ۔ اس کانفرنس سے قبل بھی ایران ، سعودی ماحول میں تناؤ موجود تھا ۔سعودی وزیر دفاع گزشتہ دنوں ہی کہہ چکے تھے کہ ایران کے ساتھ بات چیت ناممکن ہے ۔ پاکستان بارہا یہ یقین دہانی ایران کو کراتا رہا ہے کہ وہ ایران کے خلاف کسی بھی محاذ کا حصہ نہیں ہوگا اور ساتھ ہی وہ جنرل راحیل شریف کے حوالے سے ایرانی خدشات کو بھی دور کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بھی ایرانی سفیر کو یقین دہانی کرائی تھی کہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور ایک دوسرے کے مفادات کا احترام کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ آرمی چیف سے ایرانی سفیر کی چھ ہفتوں میں دو ملاقاتیں ہوئیں ،ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف بھی پاکستان آئے اورپاکستانی قیادت سے ملاقاتیں بھی کیں ۔ خواجہ آصف بھی قومی اسمبلی کو یقین دلاچکے ہیں کہ پاکستان ایران کے خلاف نہیں جائے گا ۔ اور کسی بھی مسلم ملک کے خلاف اتحاد کا حصہ نہیں ہوگا ۔
تازہ ترین