• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیاآرٹی آئی بل شفافیت کےبجائےسیکریسی کویقینی بنائےگا

اسلام آباد( عمر چیمہ) سینٹ میں پیش کیا جانیوالا معلومات تک رسائی کےنیاقانون کامسودہ اپنےہی مقصد کی ہی نفی کرتاہے،جمہوریت کے کاز اور لوگوں کےآگاہی  کےحق کا ڈھنڈوراپیٹنے والے سیاستدانوں کی طرف سےایسا اقدام انتہائی مایوسی کا باعث ہے ۔عوامی  ریکارڈ سےنکالے گئے آئٹمز کی فہرست سازی کے ساتھ ایسے معاملات طے کرنے کیلئے انفارمیشن کمیشن کو اختیار دینے کے بجائے اس قانون کے تحت یہ اختیار بھی حکومتی صوا بدیدمیں دےدیا گیا کہ وہ  یہ بات طے کریگی کہ بچی کچھی معلومات میں سے کون سی  عوام سےچھپائی جائے۔یعنی ہوگایہ کہ عوام کی نظر میں کوئی  کارآمد معلومات حکومت کی جانب سے ضرر رساں قرار دیکرروک لی جائیگی ۔معلومات تک رسائی کا حق قانون 2017ء کے عنوان سے بل بظاہرتوقانون سازی کا  فن پارہ لگتا ہےلیکن معلومات حاصل کرنےکی درخواستوں پریہ بہت بھاری پڑےگا۔یہ بل غلط کاموں کو مفاد عامہ کےنام پرچھپانے کی پرانی روش کوتوڑنے کےبجائے ’سیکریسی رجیم‘ کومزیدتواناکریگا۔ موجودہ حالت میں ڈرافٹ کو کینیڈا میں قائم سنٹر فارلاءاینڈ ڈیموکریسی جوتاثیر کے حوالے سے شفافیت کےقوانین کی عالمی درجہ بندی کرتا ہےنےاسے 150 میں سے 106 پوائنٹس دئیےہیں جبکہ اس سے پہلے سینٹ کمیٹی برائے انفارمیشن کے مسودے کو 147 نمبر ملے تھےلیکن حکومت نے اسے مسترد کردیا اور اسکے ڈھانچے میں تبدیلیاں کرکے اسے وہ صورت دی جس میں اسےاب  سینٹ میں لایاگیاہے۔ستم ظریفی یہ ہےکہ یہ تبدیلیاں اس سینٹ کمیٹی کی رضامندی سےکی گئیں جس نےمستردشدہ مسودہ تیارکیاتھا۔شفافیت کیلئےسرگرم 52 سول سوسائٹی تنظیموں کی مشترکہ باڈی دی کولیشن آف رائٹ ٹو انفارمیشن نے اس پر تحفظات کااظہار کیا ہے۔دیگراعتراضات  کے علاوہ اس نے پبلک انفارمیشن اور مستثنیٰ قرار دئیے گئے آئٹمز کی مبہم  اوروسیع  درجہ بندی پر بھی اعتراض کیا ہے۔ سی آر ٹی آئی کے مطابق ’’قابل استثنیٰ معلومات کی واضح اور مختصرواحد فہرست بنانے اورباقی معلومات کوعوامی قرار دینے کے بجائے معلومات تک رسائی کے حق قانون  2017ءمیں عام کئےجانےکےقابل ریکارڈ،عام نہ کئےجانےکےقابل ریکارڈاورایسا ریکارڈجسےعام توکیاجاسکتاہےلیکن اگراس ریکارڈمیں مخصوص معلومات ہوں توعام نہ ہوسکےکےتحت الگ الگ لسٹیں ہیں‘‘۔مسودے کا مطالعہ کیا جائے تو کئی مواقع آتےہیں جہاں اسےبنانےوالوں نےاس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ اس قانون کے ذریعے کوئی اہم  معلومات عوام تک نہ پہنچ پائے۔عوام سے خفیہ رکھےجانےوالے آئٹمز کی فہرستوں کی کیٹگریز بنانے کے ساتھ ایک اور کیٹگری’’ مخصوص ریکارڈ کےاخراج‘‘ کےنام سے شامل کی گئی ہےتاکہ استثنیٰ کی اس فہرست کو اورلمبا کیا جاسکے۔ یہ وہ پوائنٹ  ہے جہاں متعلقہ وزیر کو یہ اختیار دیاگیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی معلومات کو خفیہ قرار دےسکتاہےجس کےافشاء ہونے کووہ  مناسب نہیں سمجھتا۔کسی معلومات کےعوام تک پہنچنےسےایسا کیا نقصان ہوگا جس کی بنا پر مفاد عامہ کونظرانداز کرد یا جائےاسکی وجہ بتانےکیلئے وزیر کوبس یہ کرنا ہو گا کہ وہ لکھے’وکلاز 7ایف کے تحت‘۔سی آر ٹی آئی نےکہا’’ اس دفعہ کے تحت مفاد عامہ میں کسی معلومات تک رسائی روکنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن عوام کے مفاد میں کسی  معلومات تک رسائی فراہم کرنے کی کوئی اجازت نہیں دی گئی‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ یہ کلاز وزراء کے بجائے انفارمیشن کمیشن (اپیلنٹ باڈی) کو اختیار دینےکیلئے شامل کی جاتی ہے۔ کمیشن معلومات تک رسائی کی استدعاکرنےوالےاورحکومت کےدلائل سننےکےبعدفیصلہ کرتاہےاوراگر مفاد عامہ اس سے ہونے والے کسی ممکنہ نقصان پرغالب آ جائے تو مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کا حکم صادر کرتا ہے ۔ماضی کی روایت دیکھی جائے تو حکومت مضحکہ خیز بنیادوں پر معلومات کی فراہمی سے انکار کر سکتی ہے یا اسے خفیہ قرار دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر وزرات قانون نے 2008ء سے 2015ء کے درمیان بننے والے جوڈیشل کمشنوں کی رپورٹس عام کرنےکی  درخواست مسترد کر دی،اس انکار کیلئے جو وجہ بتائی گئی وہ یہ تھی کہ رپورٹس عام کرنے سے ایک پنڈورا باکس کھل جائیگا۔کسی بینک اکائونٹ کی معلومات بھی استثنیٰ کی کیٹیگری کا حصہ ہے۔شفافیت کے بہترقوانین اس معلومات پرقدغن نہیں لگاتےکیونکہ یہ جاری شدہ بجٹ اور اسکے خرچ ہونے سےمتعلق ہے۔ اسکوفعال اندازسےجاری کئےجانے کے بجائے اس کو ایک عام شہری کی پرائیویسی کی آڑ میں استثنیٰ دیدیا گیاجبکہ اس سے عام شہری کا کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔پنجاب کے ایک سابق انفارمیشن کمشنر نے کہا’’ وہ حالات جہاں ایسی معلومات کو استثنیٰ دیا جانا سمجھ میں آتا ہے وہ ہیں جہاں اکائونٹس میں مخصوص سکیورٹی/ انویسٹی گیشن سے متعلق اخراجات شامل ہوں اور وقت سے پہلے انکےسامنےآنےسےوصول کنندگان کے شاخت سےذاتی مفادات حاصل ہوسکتے ہوں یا تفتیش کی سمت کا تعین ہوسکتاہو اور نتیجتاً سکیورٹی/ انویسٹی گیشن کو نقصان پہنچے‘‘۔انہوں نے کہا متعدد واقعات میں پنجاب انفارمیشن کمیشن نے بینک اکائونٹس کی معلومات فراہم کرنے کی ہدایت دی جہاں معاملہ عوامی پیسےکاتھا۔معلومات تک رسائی کا قانون شہریوں کوانکےجاننےکےحق کے حصول میں معاونت فراہم کرتاہے۔اسکے برعکس آرٹیکل (12)2 کے تحت ’’ معلومات تک سائی کے حق‘‘کی تعریف انتہائی محدود رسائی فراہم کرتی ہے ۔ صوبہ خیبر پختونحوا اور پنجاب کے قوانین کے برعکس وفاقی قانون کے تحت درخواست گزار کو کسی کام یا دستاویز کو جانچنے، نوٹس لینے اور الیکٹرانک شکل میں معلومات کی نقل حاصل کرنے کی اجازت حاصل نہیں۔
تازہ ترین