• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف نے جب یہ کہا ہے کہ نئے سال کا قومی بجٹ ’’عوام دوست‘‘ ہونا چاہئے تو اپنی روح، اپنے اطلاق اور اپنے تمام تقاضوں کے اعتبار سے اس بجٹ کو ’’عوام دوست‘‘ ہی ہونا چاہئے۔ ماضی میں مختلف حکومتوں کے ادوار میں بجٹ کی آمد سے قبل عوام کو ریلیف دینے، ان پر ٹیکس عائد نہ کرنے اور انہیں روزگار سمیت زیادہ سہولتیں دینے کے دعوے کئے جاتے رہے ہیں۔ مگر عملی صورت حال یہ رہی کہ وسائل پر قابض اشرافیہ نے نہ صرف ہر طرح کے فائدے اٹھائے بلکہ ایمنسٹی اسکیموں کی صورت میں کالے دھن کو سفید کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ دوسری جانب غریب عوام پر بجلی، گیس، پٹرول اور پانی کے نرخوں میں اضافے کی صورت میں بالواسطہ ٹیکس کا بوجھ بڑھایا جاتا رہا۔ بالواسطہ ٹیکس اور افراط زر محصولات کی وہ بدترین صورتیںہیں جن سے غریب اور متوسط طبقے کے حالات دگرگوں ہوتے ہیں اور دیکھا بھی گیا ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کے اثرات نے بیروزگاری، مہنگائی اور کرپشن کے عفریت کے ساتھ مل کر نہ صرف قومی معیشت کو نقصان پہنچایا بلکہ گردوں کی اجتماعی خرید و فروخت اورمائوں کی بچوں سمیت خودکشی جیسے واقعات کو جنم دیا۔ اس بات کا کریڈٹ بہرحال میاں نواز شریف کو جاتا ہے کہ مئی 2013 ء کے انتخابات میں ان کے برسراقتدار آنے کے بعد مذکورہ نوعیت کے واقعات میں خاصی حد تک کمی آئی تاہم وہ منزل تاحال نظر نہیں آئی جب حالات پر کھل کر اظہار اطمینان کیا جا سکے۔ وزیراعظم نے بجٹ کے ’’عوام دوست‘‘ ہونے کی بات بدھ کے روز اعلیٰ سطح کے جس اجلاس میں زور دے کر کہی، اسی میں بجٹ تجاویز کی منظوری بھی دی گئی اس لئے یہ توقع بے محل نہیں کہ مالی سال2017-18ء کے بجٹ کے لئے حکومت کی اولین ترجیح عوام کی وہ سماجی و اقتصادی ترقی ہے جس کا اظہار میاں نواز شریف کچھ عرصے سے مختلف شہروں میں عوامی جلسوں سے خطاب اور پیکیجز کے اعلان کی صورت میں کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد اس کی توجہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر مرکوز رہی تاہم سماجی شعبے کی ترقی کو بھی نمایاں مقام حاصل رہا۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ مالی سال2012-13ء کی نسبت 2017-18ء کے لئے ترقیاتی بجٹ میں تین گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس اضافے سے یقینی طور پر تعلیم، صحت، کھیت سے منڈی تک مال کی سپلائی، ملک کے مختلف حصوں کے درمیان عوامی رابطوں اور معاشی سرگرمیوں میں تیزی لانے میں مدد ملے گی۔ یہ بات بہرطور نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے جس کا صوبہ پنجاب ایک زمانے میں برٹش انڈیا کے بڑے حصے کی غذائی ضروریات پوری کرتا رہا ۔ ہمیں صنعتی ترقی، آئی ٹی کی ترقی اور دوسرے میدانوں میں ترقی کے منصوبے بروئے کار لاتے ہوئے اپنی زمینوں کی زرخیزی کو پھر سے بروئے کار لانے پر خاص توجہ دینا ہوگی، دیہات میں ایگروبیسڈ صنعتوں اور تعلیم و صحت کے اداروں سمیت جدید سہولتیں پہنچانے، پیداواریت کی سطح زیادہ کر کے برآمدات بڑھانے، درآمدات کو ضروری مشینوں کے منگانے تک محدود کرنے، اپنے ہیوی انڈسٹری کے اداروں کو مضبوط بنیادوں پر دوبارہ کھڑا کرنے کی اہمیت تسلیم کر کے ہم ترقی کی کئی جہتوں میں قدم بڑھا سکتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ 1986ء میں محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ کے دور سے پریشان کن ہے۔ اس پر قابو پانے میں پیش قدمی کا نظر آنا ملک میں صنعتی، زرعی اور کاروباری ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ پاک چین اقتصادی راہداری سے وطن عزیز ہی نہیں پورے خطے بلکہ کئی براعظموں کی خوشحالی کی امیدیں وابستہ ہیں، ہمیں اس کی حفاظت بھی کرنا ہے اور متعلقہ منصوبوں کی بروقت تکمیل بھی یقینی بنانی ہے۔ مگر جب تک ہم اپنی اشرافیہ کو ٹیکس ادا کرنے پر آمادہ نہیں کرتے اور غریبوں کو بھرپور سماجی تحفظ فراہم نہیں کرتے، اس وقت تک عوام دوستی اور غربت کے خاتمے کی باتیں کاغذی اعداد و شمار میں تو نظر آتی رہیں گی، عملی زندگی سے ان کا کوئی حقیقی تعلق نہیں بنے گا۔

.
تازہ ترین