• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اُرمچی میں شام دل نشین تھی۔ موسم قدرے خوشگوار تھا۔ چینیوں نے کلچرل شو میں کمال کردیا۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ ہمارے وفد میں شامل خاتون ڈاکٹر نے جونہی اپنے قریب آتے ہوئے گھوڑوں کو دیکھا تو گھبرا گئیں۔ خیر اس شام چمکتے ہوئے اُرمچی کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ چینی قوم واقعی عظیم ہے۔ اگلے دن سنکیانگ کے لئے چینی کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداروں سے میٹنگ تھی۔ یہاں کے گورنر نے ہمارے اعزاز میں ظہرانہ دیا۔ چینیوں نےہر شعبے میں کمال کیا ہے۔ ابھی تک جتنا چین دیکھا ہے حیرتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس میں شہر بھی شامل ہیں، گائوں بھی شامل ہیں۔میں یہ سطور بیجنگ سے لکھ رہا ہوں۔ درمیان میں نان چنگ اور ینگ ٹن بھی گھوما۔ کچھ حسین مناظر کی سیر بھی شامل ہے۔ اُرمچی سےہم صوبہ جیانگ سی کے دارالحکومت نان چنگ آئے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے جدید چین کے عظیم بانی مائوزے تنگ نے جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ مائو بھی کمال آدمی تھا ساری زندگی چین سے باہر نہیں گیا۔اس کا کہنا تھا کہ..... ’’چین سے اچھا کوئی ملک نہیں.....‘‘ مائوزے تنگ بہت بڑا قوم پرست تھا۔ اس نے چینی زبان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ چین گونگا نہیں ہے۔ مائوزے تنگ نے سست لوگوں کو چستی کا سبق دیا۔ چینی آج بھی مائوزے تنگ کے فلسفے پر کاربند ہیں۔ چینی کاہل اور سست نہیں ہیں۔ جدید چین کے بانی مائوزے تنگ چینیوں کو ایساسبق پڑھاگئے کہ چینی قوم آج بھی اپنے عظم رہنما کے بتائے ہوئے اصولوں پر چل رہی ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ چینیوں کو انگریزی نہیں آتی۔ چینی لیڈر شپ کو انگریزی آتی ہے مگر دنیاکے ساتھ انگریزی نہیں بولتے بلکہ اپنی زبان بولتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ اپنے ایک چینی دوست سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟‘‘ تواس کا جواب تھا کہ..... ’’اس میں بڑی حکمت ہے۔ مذاکرات کےدوران ہمیں اس کابڑا فائدہ ہوتا ہے جب تک ٹراسلیشن یعنی ترجمہ ہو رہا ہوتا ہے ہم چینی لوگ اگلے کے لئے سوچ سمجھ کر جواب تیارکر لیتے ہیں۔ یہی ہماری کامیابی، یہی ہماری حکمت عملی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہم دنیا کو بتاتے ہیں کہ چین گونگا نہیں ہے بلکہ دنیا کی بڑی آبادی چینی زبان بولتی ہے.....‘‘ مائوزے تنگ نے جس ترقی کے راستے پر چینیوں کو ڈالا تھا،وہ اس میں کئی سال لگے رہے۔ ابھی بھی راستہ وہی ہے۔ چینی قوم آج بھی مائوزے تنگ کی وصیت پر عمل پیرا ہو کراپنے عظیم رہنما کی برسی پرچھٹی نہیں کرتی بلکہ اس روز دو گھنٹے اضافی کام کرتی ہے اور یہ اضافی کام صرف چین کے لئےہوتا ہے۔ اس اضافی کام کا کوئی معاوضہ نہیں ملتابلکہ یہ ساری رقم چین کی ترقی کے سپرد کردی جاتی ہے۔ ایسی شاندار سڑکیں تو امریکہ میں بھی نہیں ہیں۔ اتنے سیدھے قطاروں میں درخت تو امریکہ کے اند رنہیں، چین آ کر اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ، چین کا کیوں مقروض ہے اس کی وجہ بھی چینی لوگ ہیں۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے مثلاً پچھلے چاردنوں سے بلکہ جب سے ہم آئے ہیں تب سے جو چینی بندہ ہمارے ساتھ ہے وہ اتنا متحرک اور چاق و چوبند ہے کہ میں نے دنیا میں ایسے انسان کم کم دیکھے ہیں۔ وہ چینی سے انگریزی میں ترجمہ بھی کرتا ہے۔ لمحہ لمحہ ہمارا خیال بھی رکھتا ہے۔ اسے وفد کے تمام اراکین کے نام یاد ہیں۔ وہ کسی کو بھی وقت سے اِدھراُدھر نہیں ہونے دیتا۔ رات کو نیند سے پہلے ہم سب کو اکٹھا کرتاہے ،پھر اگلے دن کا پورا شیڈول بتاتا ہے حالانکہ یہ شیڈول ہمارے پاس تحریر شدہ صورت میں موجود ہوتا ہے۔ ہمیں اگلے دن کے لئے ڈریس کوڈ بتاتا ہے کہ ہمیں فارمل لباس پہننا ہے یا ان فارمل۔ وہ بڑا ذہین آدمی ہے۔ پتہ نہیں وہ کس وقت آگے ہدایات دیتا ہے کیونکہ جب ہم منزل پر پہنچتے ہیں تو چیزیں تیارہوتی ہیں۔ اسے کسی چیز کااچانک بتایاجائے تو بھی اگلی منزل پر پہنچ کر حیرت ہوتی ہے کہ چیز بالکل تیارملتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اس نے حیران کردیا ہے۔ وہ ہمیں سلا کر جاتا ہے اور ہمارے اٹھنے سے پہلے الرٹ ہوتاہے۔ میرے خیال میں اس کی نیندبہت کم ہوگی۔ وہ ملاقاتوں کے دوران بھی چوکنا رہتا ہے۔ دوران سفر بھی الرٹ، میں نے اسے کبھی سستی یاکاہلی میں نہیں دیکھا۔ اس کا نام ہے تان وئی۔ کمال آدمی ہے۔ اس کی آنکھوں میں فرض شناسی چمکتی رہتی ہے۔ وہ ہمارے ساتھ پاکستان کے سیاسی حالات پر بھی گپ شپ لگاتا ہے بلکہ ہم سے صرف پوچھتا ہے، خود سنتا ہے۔
ہم نے جیان سی صوبے میں کتنا مصروف وقت گزارا، ہم کہاں کہاں گئے، اس پر کسی دن تفصیلاً لکھوں گا کیونکہ اکثر دوران سفر پاکستانی دوستوں سے بہت گپ شپ ہوتی ہے ۔اس پورے سفر میں میر چنگیز جمالی اور عامر فدا پراچہ پکے جملے باز ثابت ہوئے ہیں۔ پنڈی والے عامر پراچہ تو لگتا ہے یاروں کے پکے یاربھی ہیں۔ یاروں سے یاد آیا کہ ہمارے ایک کلاس فیلو راشد بھنڈارہ تھے۔ راشد بھنڈارہ سے اب بھی ملاقات ہے مگر چین میں ان کا تذکرہ چنگیز جمالی نے کرڈالا۔ خوبصورت موسم میں دریاکے کنارے کشتیا ں ہماری منتظر تھیں کہ چنگیز جمالی نےمیرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا کہ آپ کو ایک خوبصورت دوست یاد کرائوں۔ میں نےعرض کیاکہ کیوں نہیں۔ کہنے لگے..... ’’راشد بھنڈارہ.....‘‘ میں نے جمالی صاحب سے کہا کہ راشد بھنڈارہ تو ہمارے کلاس فیلو تھے۔ آپ انہیں کیسے جانتےہیں؟ اس سوال پرمیرچنگیز جمالی کہنے لگے..... ’’راشد بھنڈارہ آپ کے ساتھ کالج میں پڑھتے تھےاور ہمارےساتھ اسکول میں پڑھتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے پہلے راشد بھنڈارہ ایچی سن میں ہمارےساتھ تھے.....‘‘ چین کے اس سفر میں کئی دوستوں سے کھل کر بات چیت ہوئی۔ ہمارے ساتھ سوشل میڈیا کے ماہر سمجھے جانے والے آغا ماجد اورملائیکہ رضا شامل ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ان دونوں کی موجودگی کے باوجود حیدرآباد سندھ کا نوجوان شفیق سولنگی رات گئے تصاویر سوشل میڈیا کی نذرکر رہا ہوتا ہے۔ یہ نوجوان بھی بڑا باصلاحیت ہے۔ بڑے دھیمے مزاج کامگر کام کا پورا۔ میں نے اس باصلاحیت نوجوان کو پہلے پہل شیری رحمٰن کے ہاں دیکھا تھا۔شفیق سولنگی بھی تان وئی کی طرح خیال رکھنے والا نوجوان ہے۔
چینی قوم ہمیں بہت محبت دے رہی ہے۔ ہمارے وفد کی خاطر چین میں ٹریفک رُک جاتا ہے۔ چینی حکومت، چین کی کمیونسٹ پارٹی ہمارے پروٹوکول کا خاص خیال رکھ رہی ہے۔ کبھی کبھی ایسے لگتا ہے جیسے ہم ان کے لئے شاہی قافلہ ہوں۔میں نے کئی مرتبہ یہ باتیں سہیل خان اور چکوالی دانشور سیاستدان راجہ شاہجہاں سرفراز سے بھی کی ہیں۔ ہمارے آگے پیچھے چینی پروٹوکول کی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ پروٹوکول کی دو گاڑیوں کے پیچھے وفد کے سربراہ نیئر بخاری کی گاڑی ہوتی ہے پھر دوکوسٹر، پہلی کوسٹر میں عام طور پر وہ لوگ سوار ہوتے ہیں جنہوں نے سیاست کے علاوہ دنیاکے مختلف حالات پر مختلف علوم پر پُرمغز بحث کرنا ہوتی ہے۔ یہاں مطلوب انقلابی کشمیرکا مقدمہ پوری شدومد سے لڑتے ہیں جب سیاست کی باری آتی ہے تو ان کے اندر پی ایس ایف کا زمانہ جاگ جاتا ہے۔ اعظم آفریدی اگرچہ سب سے پیچھے بیٹھتا ہے مگر سب پر نظر رکھتاہے۔ گزشتہ روز ایک آرٹ گیلری میں ایک شاہکارتصویر پر اعظم آفریدی کی نظریں رُک گئیں پھر وہ ہر ایک سے پوچھتا تھا’’آپ نے انجوائے کیاہے؟اگر نہیں کیاتو یہ تصویر دیکھ لیں‘‘ راجہ شاہجہاں سرفراز شکل و صورت سے پکا دانشور لگتا ہے، ان کی گفتگو اس پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ حیدر زمان قریشی کل سے دورانِ سفر اداس رہتا ہے۔اداسی کا سبب مجھے معلوم ہے مگر میں یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ ہماری کوسٹر میں پہلے دو سواریاں تھیں جب ہماری دانشورانہ باتیں ان کے سروں سے گزریں تو وہ دوسری کوسٹر میں چلی گئیں جہاں چنگیز جمالی اور جاوید شاہ پہلے سے سواریوں کے منتظر تھے۔ جاوید شاہ کی صورت میں سندھ سے ایک نئے دوست کااضافہ ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے سکھر کے سید خورشیدشاہ سے میل جول ہے مگر میرےدو دوست سید نیئربخاری اور اپنے لاہوری جانِ سیاست نوید چوہدری، دونوں ہی خورشید شاہ کے بڑے معترف ہیں۔میں اگر کبھی اپوزیشن لیڈر کے کردار پر تنقید کروں تو میرے ساتھ سب سے پہلے لڑنےوالوں میں نوید چوہدری شامل ہوتا ہے۔ فی الحال مجھے چینی حکومت کے یادگار اورشاندار پروٹوکول پر اپنے پیارے چینیوں کا شکریہ اداکرناہے اگرچہ میں انہیں آتے جاتے شے شی (شکریہ) کہتا ہوں مگر پھربھی مجھے حبیب جالبؔ کی ایک نظم یادآرہی ہے یہاں میں صرف دو مصرعے آپ کی نذر کروں گا کہ؎
چین اپنا یار ہے
اُس پہ جاں نثار ہے

.
تازہ ترین