• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر دو شریف برادر وزیر اعظم جناب نواز شریف اور ’’خادم اعلیٰ‘‘جناب شہباز شریف، شہر کے سماجی سیاسی تجزیوں کے مطابق دونوں بہت مختلف المزاج ہیں اور ان کے مزاج ان کے حکومتی اقدامات اور پاور پالیٹکس کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ یہ کوئی اتنی اچنبھے کی بات نہیں بھائی بھائی، بہن بھائی اور بہن بہن کا مختلف مزاج اور رویے کا ہونا ایک قدرتی امر ہے جو ہر معاشرے کے ہر گھرانے کا حسن ہوتا ہے۔ اب جو میاں برادران کے اللہ کو پیارے ہوجانے والے قلندر بھائی عباس شریف تھے وہ بھی دونوں ہی طاقتور حکمران بھائیوں سے مزاجاً بالکل ہی الٹ تھے، خاندان نے انہیں بھی حکمرانی میں شیئر کرایا اور شنید ہے کہ مطابق زبردستی کرایا لیکن وہ حقیقتاًاللہ لوک ہی تھے، سو انہیں ممبر قومی اسمبلی بناتو دیا گیا لیکن اس اللہ والے نے بھی بن کر نہ دیا اور اللہ اللہ کرتے ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آنجہانی اندرا گاندھی اپنے چھوٹے لاڈلے بیٹے سنجے گاندھی کو اپنا سیاسی جانشین بنانا چاہتی تھیں لیکن وہ کھلنڈرا دلی کی فضائوں میں ہوا بازی کے مظاہرے کرتا بھسم ہوگیا۔ میڈیم اندرا سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں تو باقی ماندہ خاندان پرست کانگریسی قیادت نے ’’آئی ٹی مین‘‘ بننے کا عزم رکھنے والے سیاست بیزار بڑے راجیو گاندھی پر حکمرانی منڈھ دی، آنجہانی امریکہ سے سپر کمپیوٹر حاصل کرنے کی تمام تر سفارتی کوششیں کرتے کرتے سویڈن سے اعلیٰ کوالٹی کی بوفر توپوں کی خریداری میں کمیشن بنانے کے الزامات میں پھنس کر متنازع ہوگئے، جس نے ان کا پیچھا قتل ہونے کے بعد بھی نہ چھوڑا۔ پھر تامل ناڈو مسئلے پر ان کی حکومتی پالیسی اتنی متنازع ہوئی کہ ایک بیمار مگر بم بردار تامل خاتون بیچارے زبردستی بنائے گئے وزیر اعظم راجیو کے لئے مہلک ثابت ہوئی جس نے انہیں ہار پہناتے ہوئے خودکش حملہ کیا اور جس میں بھارتی وزیر اعظم جان سے گئے۔ پاکستان میں بھی بھٹو حکمران خاندان کی کہانی لہو لہو ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی شیخ مجیب الرحمٰن کا خاندان بھی قتل کردیا گیا لیکن پھر بھی انجام کو نہ پہنچا کہ بنگلہ دیش کی موجودہ حکمران شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی خاندان کے قتل ہونے پر لندن میں تھی۔
برصغیر میں حکمران خاندانوں کی یہ لہولہان کہانیاں پورے برصغیر کے لئے ایک سبق ہے جو صرف یورپین برانڈ سونیا گاندھی نے پڑھا، سمجھا اور سمجھ کر عملدرآمد کردیا، جب انہوں نے نہرو خاندان کی سیاسی عقیدت میں ڈوبی کانگریسی قیادت کے ہاتھوں، کانگریسی انتخابی کامیابی پر، حکمرانی کا ہار پہننے سے انکار کردیا، جس پر گھاگ کانگریسی انکلز نے خود کو سیکولر ثابت کرنے اور سکھوں کو مین ا سٹریم میں رکھنے کے لئے سردار منموہن سنگھ کوتاج پہنادیا،تاج پہنا تو دیا لیکن ان کی یہ معصوم سی خواہش بھی پوری نہ ہونے دی کہ وہ وزیر اعظم ہوتے ہوئے اپنی جنم بھومی جہلم کا پھیرا لگائیں۔ جنوبی ایشیا میں حکمران خاندان کی کہانیوں میں بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کے خاندان کی کہانی سب سے طویل بنتی معلوم دے رہی ہے، جہاں پچاس سال ہونے پر بھی آج بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی ہی حکمران ہے اور ایسی کے کٹھ پتلی عدالتوں کے ذریعے ابا کے قتل کا بدلہ لینے پر تلی بیٹھی ہے، جس کے لئے ملزم کا50سال پہلے ابا کا سیاسی مخالف ہونا ہی کافی ہے۔
خیر سے ہمارے ہاں شریف خاندان کی اقتدار کہانی بھی تین دہائیوں سے اوپر ہے اور یک نہ شد دو شد ساتھ ساتھ۔ جمہوریت میں خاندانوں کی حکمرانی اور اس کا تسلسل حقیقی جمہوریت پسندوں کو تو ہضم نہیں ہوتا نہ ہورہا ہے لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ برصغیر میں اس جمہوریت کش رجحان کی آبیاری میں سب سے کامیاب لاہور کا شریف خاندان ہی ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے، حالانکہ اب تو یہ ممنون خاندان ضیاء الحق کا نام بھی نہیں لیتا۔ کہنے کو تو لوگ کہتے ہیں کہ اقتدار کے تسلسل کی خواہش کے سبب اتفاق برادرز میں اب وہ اتفاق نہیں رہا جو پہلے تھا، مثال دی جارہی ہے کہ پاناما پر ووکل شہباز شریف کے چپ سادھنے نے حاکم بھائیوں میں کوئی دوری پیدا کی ہے لیکن لگتا نہیں کہ ایسا ہے۔ دنیا نے دیکھا نہیں دونوں حاکم بھائیوں نے پاناما کا عبوری فیصلہ آنے پر اور نواز حکومت کے بچے رہنے پر قوم کو ساتھ مل کر مسکراتے دکھایا۔ بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ کیا ہوا اگر لاہور کے لارڈ میئر چھوٹے بھائی کی مرضی کے نہیں بلکہ بھائی جان کی مرضی کے لگے۔ یہ درست نہیں کہ ن لیگ کی ابلاغی معاونین کی کل ٹیم پاناما کی بے نقابی اور الیکشن ائیر شروع ہونے تک تحفظ حکومت اور’’عزت سادات‘‘ کو یقینی بنانے والا کوئی بیانیہ بنانے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ یہ حکمران جماعت کے آسودگی پانے والے پیغام سازوں کا ڈیزاسٹر ہے کہ آسودگی میں ان کی وہ ابلاغی صلاحیت گم ہوگئی جس نے اس برے وقت اور سخت سیاسی چیلنج پر کوئی ایسا بیانیہ تراشنا تھا جو عوام الناس میں شریف خاندان کی مقبولیت کو ناصرف قائم رکھتا بلکہ بڑھاتا لیکن پاناما کے بعد وہ بھی کیا کرتے۔
اب خود وزیر اعظم صاحب نے یہ بیانیہ تشکیل دے لیا ہے جو دو رخا ہے اور جناب شہباز شریف نے بھی اختیار کرلیا ہے۔ ایک رخ سے وہ سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیںاور دوسرے سے سیاسی مخالفین پر حملہ آور، پہلے میں تو کوئی زیادہ کامیاب نہیں ہوئے کہ عوام کی حالت زار ہی ایسی ہے۔ بجلی نہیں، پانی نہیں ،ہے تو صاف نہیں پینے کے قابل نہیں پھر بھی پیتے ہیں۔ تعلیم و صحت کی انتہائی بنیادی اور سب سے بڑی ضرورت کی فراہمی میں مکمل ناکامی کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ اسے گورنمنٹ پارٹنر شپ کے حوالے کرکے جان چھڑالی جائے، خواہ یہ کتنا ہی متنازع اور مشکوک ہے، پہلے اقدامات کوئی بہت شفاف اور غیر متنازع ہیں جو اس کی پروا کی جائے ۔جناب وزیر اعظم نے جو بیانیہ تشکیل دیا وہ ہے’’وہ دیکھو ملک میں سڑکوں کا جال بچھ رہا ہے اور یہ جو دھرنا گروپ ہے ترقی کا دشمن، یہ آئندہ الیکشن میں بھی ناکام ہی رہے گا۔ باوجود اس کے جناب شہباز شریف اور اب خود وزیر اعظم بھی موجود نظام کے ناقد اسے گلاسٹرا اور عوام دشمن قرار دیتے ہیں اور مانتے ہیں کہ ملک میں کوئی ایک گھپلا نہیں، گھپلے ہی گھپلے ہیں ، لیکن ہم ترقی کی جانب رواں دواں ہیں حالانکہ اتنے بڑے بڑے گھپلوں کو نظر انداز کرکے ترقی ہوسکتی ہے؟ ترقیاتی عمل کی روانی کے لئے تو شفافیت لازمہ نہیں؟ یہ ہے وہ اتحاد برادران اور متفقہ انداز سیاست کہ جہاں ان کے ابلاغی معاونین بھی حکومت کے دفاع اور مقبولیت بڑھانے اور مخالفین کو ایک ہی جواب میں ساتھ ساتھ ہیں، اللہ جوڑی سلامت رکھے لیکن دونوں حاکم بھائی یاد رکھیں کہ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مانا ہے کہ دنیا میں امن کا راستہ مکہ مدینہ سے ہو کر گزرتا ہے، اسی طرح پاکستان ہی نہیں دنیا کی ہر ریاست کا حقیقی ترقی کا راستہ کمیونٹی ڈویلپمنٹ اختیار کرنے سے ہی ممکن ہے جس کی آئینی بھی اور عملی شکل طاقتور Empowered Local Government system ہی جو آپ کو ہرگز قبول نہیں کہ یہ ثابت شدہ کیس ہے پھر ترقی کا کیا دعویٰ؟



.
تازہ ترین