• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں ہچکولے کھاتی جمہوریت کی گاڑی بیڈ گورننس، کرپشن، بدعنوانی اور نااہلیوں کے طعنوں اور عملی دشنام طرازیوں کیساتھ دوسرا جمہوری دور کا سفر مکمل کرنے کو ہے، حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ طویل ڈکٹیٹر شپ کے بعد صرف ووٹ اور کارکردگی کی بنیاد پر حکومت بنانے اور مدت پوری کر کے گھر جانے کا پیچیدہ عمل حقیقت کا روپ دھار رہا ہے، جمہوریت کے نام پر عوام سے ’’ہاتھ‘‘ کرنے والوں کے احتساب کا عمل بھی انگڑایاں لے رہا ہے، بے داغ سیاسی وجمہوری نظام کے لئے احتساب کا نعرہ مقبول عام ہے اور ہر کوئی اپنی مرضی کا احتساب چاہتا ہے لیکن شفاف، بلاامتیاز اورAcross the board احتساب بدستور انتقامی بدبو کاشکار، مشکوک اور بڑا سوالیہ نشان بھی ہے، احتساب چاہتا تو ہر کوئی ہے لیکن اپنا نہیں صرف دوسرے کا اور وہ بھی کڑا اور بے رحمانہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب احتساب شروع ہوتا ہے تو وہ احتساب کا مطالبہ اور احتساب کا سامنا کرنے والا دونوں اسکو جانبدارانہ، سفاکانہ اور یک طرفہ قرار دے کر ہاہا کار مچا دیتے ہیں۔ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے اور جے آئی ٹی کی تحقیقات شروع ہونے سے پہلے ہی حکومتی ایوانوں میں مٹھائیاں بانٹنے اور پھر حقیقت کھلنے پر ہلچل اور بے چینی نے بداعتمادی کی فضا پیدا کردی، اہم وزراء اور ن لیگی رہنماوں نے خود کو لوہے کے چنے قرار دے کر معزز اعلیٰ عدلیہ پر دھمکی آمیز طنز کے نشتر برسانے کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ معزز ادارے کو برا بھلا کہنے کے مقابلے میں بھی ’’طاقتور ساتھیوں‘‘ کو تھپکی جبکہ ’’دیرینہ و وفادار کارکنوں‘‘ کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب الزامات نئے ہیں نہ تحقیقات واحتساب کا عمل، ہماری سیاسی تاریخ سیاست دانوں کی باہمی چپقلش وتنازعات اور پھر حد سے گزر جانے کے واقعات سے بھری پڑی ہے، پھر کہتے ہیں کہ ’’سیاستدانوں کو حسین شہید سہروردی سے اب تک احتساب کاسامناہے‘‘ دیکھا جائے تو ان کے اپنے ’’جمہوری‘‘ اعمال ہی مصداق آئینہ ہیں، یہ سیاستدان ہی ہیں جو ہر دور میں ’’طاقتوروں‘‘ کے پروردہ اور گماشتے بنے رہتے ہیں اور ’’بعض‘‘ تو اب بھی ہیں… پھر انہی کی اشیرباد سے سیاسی مخالفین کے خلاف مہم جوئی کرتے ہیں اور احتساب کے نام پرحشر بپا کر دیتے ہیں۔ چاہے کچھ بھی ہاتھ نہ آئے یا سب کچھ چھن جائے…! پہلے مارشل لا سے اب تک تاریخ ایسے انگنت واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں شخصیات و حکومتوں پر الزامات اور پھر نام نہاد احتساب ملک وقوم کے لئے بھیانک ثابت ہوا۔ یہ بات بھی سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی ہے کہ کیا ملک میں 30 سے40 برس تک بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والے غیرمنتخب ’’طاقتوروں‘‘ کا مقصد محض حسین شہید سہروردی سے لے اب تک سیاستدانوں کا احتساب تھا یا کچھ اور؟ حقیقی مقصد احتساب تھا تو ایماندارانہ اور شفاف نظام کا قیام اب تک خواب کیوں ہے؟ اپنی مرضی کا نظام مسلط کرنا اور پالیسیوں سےاختلاف کی بنیاد پر شخصیات وجمہوری نظام کو انا کی بھینٹ چڑھانا ہی شاید کڑا احتساب ہے۔
ملکی تاریخ میں سزا وجزا کے عمل پر کہنے والے کہتے ہیں کہ فوجی گملے میں پروان چڑھ کر عوامی رنگ میں رنگ جانے پر بھٹو کو کرپشن یا کسی اور جرم میں نہیں ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کے جرم میں تخت سے تختہ دار پرلٹکا دیا جاتا ہے، حکم عدولی پر اپنے ہی نامزد کردہ وزیراعظم جونیجو کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جاتا ہے، عوامی جمہوری نظام کی بات کرنے پر عدالتوں میں دھکے اور دہشت گردوں کیخلاف آواز اٹھانے پر بینظیر ’’دہشت گردی‘‘ کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسامہ کے پاکستان آنے کے بارے میں سوال کی جسارت پر گیلانی کو نااہلی اور بچوں کو مقدمات اورمغوی ہونے کا احتساب برداشت کرنا پڑتاہے، خطےمیں امن وخوشحالی اور ہمسایوں (بھارت) سے اچھے تعلقات اور سی پیک کی بات کرنے والے نوازشریف کو جلاوطنی، دھرنوں اور بچوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے، قارئین کرام، بالفرض ان زیادتیوں کو مان بھی لیا جائے تو کیا یہ بھی سچ نہیں کہ یہ سب سیاستدانوں کی اپنی سیاسی ناپختگی، نااہلی یا ناسمجھی کا کیا دھرا ہے، کیا یہ حقائق نہیں کہ خود کو دودھ کے دھلا قرار دینے والےیہی ’’بے چارے سیاستدان‘‘، اقتدار کی خواہش میں کبھی ایک دوسرے پر بدترین وبے سروپا الزامات لگاتے ہیں تو کبھی ملکی وغیر ملکی طاقتوں اور مقتدر حلقوں سےاپنے لئے انصاف اور دوسروں کے احتساب کا مطالبے کرتے ہیں۔ کیا انہی سیاستدانوں کی نابالغ و کم فہمی نہیں کہ کبھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئےعدالتوں میں گھسیٹتے اور کبھی وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں، کبھی نوٹ سے ووٹ خرید کرعوام سےدھاندلی کرتے ہیں اور کبھی ایمپائر کے ذریعے دوسرے کو بے اقتدار کرنے کی سعی میں اپنی بے توقیری کی حدوں کو بھی پار کر جاتے ہیں…! یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اپنے جگر گوشوں کو تحقیقاتی کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے مضبوط وزیراعظم کو ماضی کے تلخ کارنامے بھی یاد تو آتے ہوں گے؟ جمہوری حکومت کے خلاف میموگیٹ اسکینڈل ایسے’’چیف جسٹس‘‘ کی نوکری بحالی کے لئے لانگ مارچ، جس نے بحال ہو کر اپنے بیٹے پر بدعنوانی کا مقدمہ کسی دوسرے کو سننے کی اجازت نہ دے کر’’انصاف‘‘ کی نئی مثال قائم کی، سیاسی جوڑ توڑ، پارلیمنٹ کے اندر، باہر دھرنے اور احتجاج، منتخب وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبے اور بین الاقوامی معاملات پر سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں کو اعتماد میں لئے بغیر فیصلے اور نہ جانے کیا کچھ یاد آتا ہوگا، کسی نےسچ کہا ہے کہ جس راستے سے چل کر جائو اس راستے کے کانٹے اور پتھر ہٹاتے جائو ممکن ہے کبھی انہی راستوں پر واپس بھی آنا پڑے… لیکن ہمارے سیاست دان ہمیشہ یہی بات بھول جاتے ہیں اور اب بھی یہی ہو رہا ہے، تاہم اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقت ور ترین وزیراعظم کے بیٹے پیشیاں بھگت رہے ہیں، گھنٹوں انتظار اور تنہائی میں تفتیش کا سامنا کر رہے ہیں، اس سے بڑے اور کڑے احتسابی عمل کا نمونہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ جس اولاد کی خاطر حکمران طبقہ سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے وہ آج اپنا حساب کتاب دینے پر مجبور ہے شاید یہی جمہوری نظام کی مضبوطی کا ایک مسلسل عمل بھی ہے۔ بلاشبہ ابھی جمہوری اقدار پنپ رہی ہیں اور ریاستی ادارے اپنے دائرہ کار میں رہنے کے عادی بن رہے ہیں، سیاسی شعور اور برداشت کا کلچر ابھی پروان چڑھ رہا ہے اور یہی درست راستہ ہے کیونکہ دنیا کی بڑی ریاستیں اور چھوٹے بڑے ملک انہی کٹھن راستوں سے ہو کر مثالی جمہوری معاشروں میں تبدیل ہوئے ہیں، یقیناً یہ صبر آزما مرحلہ ہے ذہنوں اور رویوں کے بدلنے میں اور وقت لگے گا، نظام کے بارے میں بھی ابھی دھمکی اور دھڑکا لگے رہے گا تاہم سابق اور موجودہ منتخب حکومت کو الٹنے کی کئی اور مسلسل ’’ناکام‘‘ کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سب کو یقین کرلینا چاہئےکہ اب غیرجمہوری، غیر آئینی اور غیرقانونی تجربوں اور حربوں کا وقت تمام ہوچکا ہے، کبھی ایک تو کبھی کسی دوسرے ریاستی ادارے کے ذریعے تخت سے تختہ کرنے کی مشق اب ختم ہونی چاہئے، دس گیارہ ماہ باقی ہیں ووٹ کی طاقت سے فیصلہ کرنے کا وقت قریب آرہا ہے، اگر وزیراعظم صاحب بجلی بحران، روزگار کی فراہمی، معاشی بحالی، امن کے قیام اور ترقی کے دعوؤں اور قول فعل میں سچے ثابت ہو گئے تو عوام ووٹ سے انہیں دوبارہ مسند پر بٹھادیں گے ورنہ پیپلزپارٹی کے ساتھ ’’کارکردگی‘‘ کی بنیاد پرجو کچھ 2013 ء میں ہوا اسی طرح کے احتساب وعتاب کا نشانہ بن جائینگے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آخری ڈکٹیٹر بلاشرکت غیرے اقتدار پر ایک دہائی قابض رہا اسکے ہاتھ سب کچھ تھا، لیکن ملک وقوم کی حقیقی خوشحالی، ترقی اور توانائی بحران سےنمٹنے کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کر کے نہ صرف رسوا ہوا بلکہ خود ساختہ جلا وطن بھی ہے، وطن عزیز میں مسلسل تجربات کے بعد اب یہ طے ہو چکا ہے کہ ملک مارشل لا یا کسی بھی ایڈونچر کا متحمل نہیں، جمہوری نظام میں ووٹ اور خود احتسابی کے عمل کے کلچر کو مضبوطی سے پروان چڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ حکمران، جے آئی ٹی یا کسی اور فورم کے ذریعے نشانہ بنائے جانے کےخدشات پیدا کریں نہ اس عمل کو مشکوک بنائیں اور اگر کوئی منفی تاثر ہو بھی تو مقتدر حلقے انہیں فوری دور کریں تاکہ کسی عناد یا اختلاف کی بنیاد پر یک طرفہ احتساب یا کسی انتقامی کارروائی کےخدشات ختم ہوں بلکہ معزز عدلیہ پر وزیراعظم یا اس کی اولاد ہی نہیں عام آدمی کا اعتماد بھی ایسے بحال ہو کہ اعلیٰ عدلیہ کے آزادانہ و منصفانہ فیصلوں کو من وعن اور کھلے دل سے تسلیم کیا جاسکے!



.
تازہ ترین