• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ولی خاں یونیورسٹی کے ہونہار طالبعلم مشال خاں کے قتل کیس میں JIT نے چالان جمع کروا دیا ہے۔ 1600 صفحات پر مشتمل 4جلدوں کے چالان میں ہر ملزم کے کردار کا الگ الگ تعین کیا گیا ہے۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ قتل منصوبہ بندی سے کیا گیا جس میں یونیورسٹی ملازمین بھی ملوث ہیں۔ مشال کے خلاف توہینِ رسالت یا توہینِ مذہب کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ وہ یونیورسٹی میں بے ضابطگیوں کے خلاف کھل کر بات کرتا تھا مخصوص گروپ نے توہینِ رسالت کے نام پر لوگوں کو مشال خاں کے خلاف اکسایا جبکہ اس کے خلاف اس نوع کا کوئی ثبوت نہیں۔ رپورٹ کے مطابق تشدد اور فائرنگ کے بعد مشال سے آخری بار ہاسٹل وارڈن کی گفتگو ہوئی جس میں مشال نے کہا کہ میں مسلمان ہوں کلمہ پڑھ کر سنایا اور ہسپتال پہنچانے کی التجا کی۔ آج اس مظلوم نوجوان کا بوڑھا باپ ہماری سوسائٹی سے اپیلیں کرتا پھر رہا ہے کہ میرے بیٹے نے کوئی مذہبی توہین نہیں کی شانِ رسالت میں کوئی گستاخی نہیں کی وہ بے گناہ تھا۔ JIT خود تسلیم کرتی ہے کہ اس کے قاتلوں میں باقاعدہ جرائم پیشہ لوگ شامل تھے۔ میں اپنے بیٹے کا کیس مردان سے پشاور منتقل کروانا چاہتا ہوں۔ میں ایک انتہائی غریب شخص ہوں وکیلوں کی فیسیں دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ صوبائی حکومت وکیل کا اہتمام کر دے بصورتِ دیگر وفاقی حکومت سے تعاون کی اپیل کروں گا۔
اے این پی کے پارلیمانی رہنما کو شاید اتنی تکلیف باچا خاں کے سچے پیروکار اور فلسفہ عدم تشدد کے پرچارک اس ذہین نوجوان کے قتل کی نہیں ہے جتنی تکلیف اس بات پر ہے کہ پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے لوگوں نے بھی اس اندوہناک قتل میں منفی رول ادا کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’درندگی کا یہ واقعہ دن دیہاڑے ہوا، اس موقع کے وڈیو کلپس بھی موجود ہیں ۔ یہ وڈیو کلپ پوری دنیا نے دیکھے لیکن JIT میں حکومتی اور اتحادی حمایت کے ساتھ ان قاتلوں کی سیاسی وابستگی ظاہر نہیں کی گئی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اے این پی کا موقف اسفند ولی خاں واضح کر چکے ہیں مشال خاں کے قاتلوں کو ایسی سزا دی جائے کہ دھرتی پر دہشت و وحشت پھیلانے والوں کو عبرت حاصل ہو۔ مجرموں کا تعلق کسی بھی مذہب یا پارٹی سے ہو کوئی رعایت نہ برتی جائے، قاتل صرف قاتل ہوتا ہے ایسا مکروہ فعل کرنے والے باچاخاں کی عدم تشدد پر مبنی سوچ کے پیروکار نہیں ہو سکتے....‘‘ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ اس گھناؤنے قتل میں مرکزی کردار ادا کرنے والا پی ٹی آئی کا مقامی کونسلر اتنے اثر و رسوخ کا مالک ہے کہ ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا سکا حالانکہ ان کے پارٹی لیڈر نے مقتول کے گھر پہنچ کر ان کے والد سے یہ وعدہ کیا تھا کہ قاتل اگر میری پارٹی کا بھی ہوگا تو سزا سے بچ نہیں سکے گا مگر بالفعل جو کچھ ہوا ہے اسے قاتلوں کی سرپرستی قرار دیا جائے یا پختونخوا حکومت کی نا اہلی؟
مردان کی مقامی قیادت نے اتنی سنگین وحشیانہ واردات کے بعد بھی اپنا غیر ذمہ دارانہ رویہ جاری رکھا۔ جب یہ حقیقت سب پر واضح ہو گئی کہ مشال خاں کسی نوع کی توہین کا مرتکب نہیں پایا گیا بلکہ مذموم مقاصد کے تحت اس کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا، اس کے بعد قاتلوں کو بچانے یا ان سے ہمدردی کرنے کے لیے یہاں تک کہا گیا کہ اگرچہ اس مظلوم نوجوان نے توہین مذہب نہیں کی ہے لیکن قاتلوں کی نیت تو بہرحال نیک تھی انہوں نے اگر ایک بے گناہ انسان کی جان لی ہے تو اس سوچ کے زیر اثر لی ہے کہ اُس پر توہین کا الزام لگ گیا تھا۔چونکہ ان کا ارادہ نیک تھا اس لیے انہیں کوئی سزا نہیں ملنی چاہئے.... ہم پوچھتے ہیں کہ ذرا اس خطرناک سوچ کے ہولناک نتائج پر بھی غور فرما لیا جائے اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہاں کسی بھی کمزور انسان کی زندگی محفوظ نہیں رہے گی۔ اثر ورسوخ یا طاقت رکھنے والا کوئی بھی فرد یا گروہ جب چاہے کسی بے گناہ پر یہ شدید الزام عائد کرے اور قتل کردے بعد میں اس کے ثواب کا بھی دعویدار بن جائے کہ کام تو اگرچہ غلط کیا ہے لیکن نیت نیک تھی جذبہ حب پر مبنی تھی۔
مشال خاں کا قتل اس نوع کی پہلی یا آخری واردات نہیں ہے اب تک اس نوع کے جتنے بھی قتل ہو چکے ہیں ان سب کی تفصیلات ملاحظہ فرمالیں دل خون کے آنسو روئے گا کہ ہماری زندگیوں کے فیصلے قادر مطلق نے نہیں موت کے ان بیوپاریوں نے کرنے ہیں۔ گویا سوسائٹی ان کی یرغمال بنی رہے گی۔ آخر دہشت گردی کیا ہے؟ یہی ناکہ کسی کو اپنی دہشت سے ڈرا کر یا خوفزدہ کرتے ہوئے اپنی بات منوائی جائے تو پھر بالفعل ہماری سوسائٹی میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا دنیا میں انسانی زندگی کا بھی کوئی نعم البدل ہے؟ دنیا میں کوئی بھی چیز ٹوٹ کر بن سکتی ہےلیکن یہ ناممکن ہے کہ ایک انسان کو آپ موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد دوبارہ زندہ کر سکیں۔
آج ہماری سوسائٹی دہشت اور جبر کے ہاتھوں اس قدر دبی ہوئی ہے کہ اس صریح ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے سے قاصر ہے۔ شدت پسندی کی سفاکیت کھلے بندوں دندنا رہی ہے لیکن کسی میں یارا نہیں کہ اس پر تنقیدی نظر بھی ڈال سکے۔ لگتا ہے یہاں کسی اتاترک نے نہیں آنا ہے ہمیں خود ہی اپنی بگڑی تقدیر اور سوچ کو سنوارنا ہے۔ ذرا اس چوبیس سالہ ذہین طالبعلم مشال کے والدین کا تصور کیجئے اس جواں سال نے بڑھاپے میں ان کا سہارا بننا تھا آج وہ منتیں سماجتیں کرتے ہوئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ان کی زندگیوں کا سہارا ہی نہیں چھینا اچھے مستقبل کے خواب بھی ٹوٹ گئے۔ ہمارا میڈیا جو فلسطین، کشمیر، برما اور شام کے مظلومین کی باتیں کرتے نہیں تھکتا لیکن وطنِ عزیز کے اندر انسانی دکھوں، بیچارگیوں اور ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے کا یارا نہیں رکھتا۔ نفرت کے اس مائنڈ سیٹ کو کیوں نہیں توڑا جاتا۔ ریاست کی حیثیت تمام شہریوں کے لیے مائی باپ کی ہے وہ کچھ بچوں کے لیے سوتیلی ماں کا رول کیوں ادا کرے۔ ہم جشن مناتے ہیں کہ آزاد ہو چکے ہیں جبکہ فکری و شعوری طور پر ہم شدت پسند گرئوہوں کے غلام ہیں۔ حریت فکر کے بغیر آزادی کا تصور بے معنی ہے۔ فکری آزادی و تکریم ہر مہذب انسان کا بنیادی حق ہے ہم کہتے ہیں سردست انسانی حقوق کا عالمی چارٹر ہی ہمارے سلیبس میں شامل کر دیجئے جس کی ترویج کا ہم نے بحیثیت ریاست عالمی سطح پر عہد کر رکھا ہے۔

تازہ ترین