• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مغربی دنیا ان دنوں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے مانچسٹر میں میوزک کنسرٹ پر خود کش حملے کے بعد لندن برج کے خوفناک دھماکوں تک یوں محسوس ہوتا ہے کہیں بھی دنیا کا کوئی گوشہ دہشت گردوں سے محفوظ نہیں ہے ۔ دہشت گر د خود کش جیکٹس ہی نہیں پہنتے ہیں گاڑیوں سے بھی راہگیروں کو کچلنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے، بم میسر نہ ہوں تو چاقوئوں اور خنجروں سے بھی حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ایسی تما م وارداتوں میں چاہے وہ مسلم ممالک میں ہوں یا غیر مسلم ممالک میں دہشت گردی کرنے والے تمام کے تمام لوگ بالعموم نام نہاد مسلمان ثابت ہوتے ہیں یہ الگ بحث یا تکرار ہے کہ ان پر اسلام کی تعلیمات کا کتنا اثر تھا۔ ابھی پچھلے دنوں مصر میں مسلح افراد نے مسیحیوں کی ایک بس پر حملہ کر دیا جو چرچ سے نکل رہی تھی اس میں درجنوں افراد مارے گئے۔ سعودی عرب جیسے راسخ اسلامی ملک نے اخوان المسلمون ، جماعتہ الاسلامیہ، حماس اور ان جیسی 12شدت پسند اسلامی تنظیموں اور59مذہبی شخصیات کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کر دی ہے۔
ہمیں اس نکتے پر بھی غور کرنا چاہئے کہ ایسے حملے صرف غیر مسلموں پر ہی نہیں ہو رہے ہیں جہاں موقع ملتا ہے خود مسلمان بھی ان کا تختہ مشق بن رہے ہیں۔ شام، ایران، عراق اور ترکی میں ہونے والے حالیہ حملوں کو دیکھا یا پرکھا جا سکتا ہے۔ ان سے بھی بڑھ کر افغانستان میں ان دنوں جو پے در پے خود کش حملے ہوئے ہیں حتیٰ کہ لقمہ اجل بننے والوں کے جنازے پڑھے جا رہے ہوتے ہیں انہیں بھی نہیں بخشا جا رہا۔ کابل کے سفارتی ایریا میں ہونے والا حالیہ بم دھماکہ جس میں مرنے والوں کی تعداد 90تھی جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ اب افغان صدر اشرف غنی عالمی برادری کو بتا رہے ہیں کہ اس حملے میں مرنے والوں کی تعداد 150 تک پہنچ چکی ہے ۔ کابل میں عالمی امن و سلامتی کانفرنس جس میں پاک انڈیا سمیت 25 ممالک ، اقوام متحدہ ، نیٹو اور یورپی یونین کے نمائندے بھی شریک ہوئے ہیں سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر جناب اشرف غنی نے کہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے حملے اسی تشدد کا حصہ ہیں جس کا سامنا برطانیہ سمیت دنیا کے کئی ممالک کو ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف اس عالمی جنگ میں افغانستان سب سے آگے کھڑا ہے ہم 20بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ آپ سب لوگوں کی طرف سے لڑ رہے ہیں ۔ افغان صدر نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی طرف رخ کرتے ہوئے الزام لگایاکہ وہ ان کے خلاف غیراعلانیہ پراکسی جنگ مسلط کیے ہوئے ہے اسلام آباد کو نہ جانے کب اور کیسے سمجھ آئے گی کہ خطے میں امن کے لئے مستحکم افغانستان ضروری ہے ہم نہیں جانتے کہ پاکستان آخر چاہتا کیا ہے؟ اپنے برادر ہمسایہ ملک کے خلاف اتنا تلخ اظہارِ خیال کرتے ہوئے افغان صدر کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ خود پاکستان کے اندر جو خود کش حملے اور دہشت گردی کے سانحات وقوع پذیر ہو رہے ہیں کیا وہ بھی پاکستان خود کروا رہا ہے ؟ اگر نہیں تو پھرمسئلہ الزام تراشی سے کبھی حل نہیں ہو سکتا۔ ہر دو ممالک کو سوچنا چاہیے کہ دہشت گردی کی لعنت ان کی مشترکہ دشمن ہے غلطیاں کوتاہیاں جس کی بھی ہیں تباہی دونوں کی ہو رہی ہے ۔ آج وہ خود طالبان کو مذاکرات کی پیش کش پر مجبور ہیں اور بدلے میں اُن کے دفاتر کھولنے کو بھی تیا ر ہیں آج وہ اگر طالبان کو آخری موقع دے رہے ہیں تو یہ بھی یاد رکھیں کہ افغان حکومتیں بہت طویل عرصے سے اسی نوع کے آخری مواقع کی پیشکش کرتی چلی آ رہی ہیں اور آئندہ بھی کرتی رہیں گی اس سے انہیں اپنی کمزوری اور دشمن کی مضبوطی کا احساس ہو جانا چاہیے۔ بلاشبہ انہیں طالبان کے خلاف پاکستان کے تعاون کی اس طرح ضرورت ہے جس طرح ہمیں اپنے خطے میں قیامِ امن کے لیے افغان دستِ تعاون کی ضرورت رہتی ہے ہمارے ہاں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو افغانستان کو بھارت کی پراکسی کہتے نہیں تھکتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ الزام تراشیاں یا دھمکیاں ہر دو اطراف سے قطعاً نہیں ہونی چاہئیں ۔اب شنگھائی تعاون تنظیم کی آستانہ سمٹ میں وزیر اعظم نواز شریف کی افغان صدر سے جو خوشگوار ملاقات ہوئی ہے ان میں تحائف کے تبادلوں سے لے کر خیالات کے تبادلوں تک جاتے ہوئے برف ضرور پگھلے گی باہمی و علاقائی ملاقاتوں کا یہ تسلسل جاری رہنا چاہئے۔
دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخ یادوں کے ساتھ بہت سی شیریں باتیں بھی ہیں سوویت مداخلت کے خلاف دونوں نے طویل عرصے تک مشترکہ مزاحمتی و جہادی جدوجہد کی تھی طالبان کا تحفہ بھی شاید باہمی غلط کاریوں کی سزا میں بخشا گیا تھا اب جہاں پاکستان کو یہ چاہئے کہ وہ اپنی افغان پالیسی تبدیل کرے۔ وہیں افغان حکومت بھی پاکستان پر الزام تراشیوں کی بجائے دستِ تعاون بڑھائے۔ آج اگر افغانستان میں ہماری نسبت بھارت کی زیادہ قدرو منزلت ہے تو ہمیں اس کی وجوہ پر بھی ٹھنڈے پیٹوں غور کرنا چاہئے۔ افراد ہوں یا اقوام محبت اور خدمت سے ہی کسی کا دل جیتا جا سکتا ہے کھوکھلے پروپیگنڈے سے کدورت منافقت اور منافرت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اپنی خارجہ پالیسی میں ہم نے جس طرح انڈیا دشمنی کو اپنا محور بنا رکھا ہے اس پر بھی وقت آ گیا ہے کہ ہم نظر ثانی فرمائیں ۔
جہاں تک یورپ کے مختلف ممالک بالخصوص برطانیہ میں خود کش حملوں یا دہشت گردی کے سانحات کا تعلق ہے ہم اُس کی ایک بڑی وجہ مغربی قوانین میں مجرموں کے لئے نرمی یا لچک کو خیال کرتے ہیں۔ شدت پسندی مائنڈسیٹ یا ذہنیت کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ متعلقہ شدت پسند کی پاکستان یاترا ہوئی ہو آپ کے اپنے خطوں میں بھی بہت سی پناہ گاہیں اور پاکٹس موجود ہیں جہاں یہ سوچ پنپ سکتی ہے بلکہ پروان چڑھ رہی ہے۔ دور دور کی نرسریاں تو آپ لوگوں کو نظر آتی ہیں مگر چراغ کے نیچے کیا کچھ ہو رہا ہے اس کی خبر عقل کے دعویداروں کو شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔

تازہ ترین