• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتاب سے پہلے صاحب ِ کتاب۔بھارتی صحافت کا بھاری بھرکم نام ہے کلدیپ نائیر جو 14اگست 1924کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ لمبی چوڑی رسمی تعلیم کے ساتھ اردو اخبار ’’انجام‘‘ سے صحافت کا آغاز کیا۔ انگریزی اخبار ’’دی اسٹیٹ‘‘ کے نمائندے رہے۔ 25برس تک ’’پتریکا ٹائم‘‘ کے بیوروچیف رہے۔ وزیراعظم لال بہادر شاستری کی حکومت میں سیکرٹری انفارمیشن رہے۔ بھارت میں ’’ایمرجنسی‘‘کے دوران پریس کی آزادی کی تحریک چلانے کے جرم میں جیل بھی گئے۔ 1989میں ’’ڈیلی گیشن ٹو دی یونائٹیڈ نیشن‘‘ کی نمائندگی کی۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں سٹیزن آف ڈیموکریسی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل آئیڈیا کے چیئرمین رہے۔ عرب امارات میں یونیورسٹی آف امارات کے شعبہ ماس کمیونی کیشن کےپروفیسر رہے۔ بے شمار اعزازات کے ساتھ ساتھ یہ اعزاز بھی کلدیپ نائیر کو حاصل ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ایک خاص قسم کا لگائو رکھتے ہیں۔ بھارت او ر پاکستان کے درمیان دوستی کے رشتہ کو استوار کرنے کے لئے ایک عرصہ سے بھرپور جدوجہد کے لئے مسلسل متحرک ہیں۔ ہمارے دوست اسد مفتی ان کے بارے میں کیاخوب کہتےہیں ’’سیکولرازم کا اردو ترجمہ ’’کلدیپ نائیر‘‘ ہے۔‘‘ کتاب کا عنوان ہے ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ دیباچہ میں لکھتے ہیں ’’یہ کتاب جو کہ میری آپ بیتی ہے ، نے میری توقعات سے زیادہ وقت لیا۔ یہ کتاب میں نے 1990میں لکھنا شروع کی جب برطانیہ میں انڈیاکا ہائی کمشنر ہونے کے ناتے مجھے کچھ فرصت تھی‘‘اس تعارفی تمہید کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یوں تو یہ پوری آپ بیتی ہی کسی تاریخی طلسم ہوشربا سے کم نہیں اور آزادی سے لے کر آج تک کے بھارت کو یہ کتاب پڑھے بغیر سمجھا ہی نہیں جاسکتا لیکن جس ’’انکشاف‘‘نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیاوہ بھارتی اور پاکستانی سیاست و صحافت کے انحطاط میں ایک حیرت انگیز مماثلت و مشابہت ہے۔ ہم بابائے قوم محمد علی جناحؒ جیسے عالیشان مدبر سے شروع ہو کر میاں نوازشریف تک جا پہنچے تواُدھر بھارت بھی جواہر لعل نہرو جیسی شخصیت سے شروع ہو کر نریندر مودی تک آ پہنچا تو بلندیوں سے پستیوں تک کایہ سفر سیاسی زوال کی عجیب داستان ہے۔ دوسری طرف صحافت میں بھی حیران کن مماثلت ہے۔ نظریاتی صحافت سے لے کر تجارتی صحافت تک یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک ہی ملک کی کہانی ہے۔کلدیپ نائیر لکھتے ہیں:’’آج کل اخبارات میں ایک نئی اصطلاح ’’سی ای او‘‘ متعارف ہوئی ہے گویا اخبار بھی کوئی کاروباری یونٹ یا صنعتی ادارہ ہے اور کچھ اخبارات جیسے ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ کا توکوئی ایڈیٹر ہی نہیں ہے۔وہ فخر سے کہتے ہیں کہ اداریوں سے زیادہ اہم مارکیٹ ہے اور فخر سے اخباری کالم فروخت کرتے ہیں۔ اس طرح لفافہ جرنلزم کی اصطلاح وجودمیںآئی ہےاورعلاقائی اخبارات نے تو اس ضمن میں تمام حدیں پھلانگ لی ہیں۔1975سے 1977کی ایمرجنسی اس سلسلہ میں ایک اہم موڑ ہے۔ جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے صحافیوں کو گھیرنےاور ان کاتعاون حاصل کرنے کی کوشش کی، اس نے مالکان کو حیران کردیا کہ شاید ان کی اہمیت اتنی نہیں۔ اگر وہ گورنمنٹ کی ڈکٹیشن پر چلنے کو تیار تھے تو ان کی ہدایات پر چلنے میں کیا مسئلہ تھا جن سے وہ تنخواہ لیتے تھے۔ بہت سے اہم اخبارات کو اپنے اداریوںاور مضامین کے لئے مالکان کی منظوری درکارہوتی ہے۔ تقریباً تمام مالکان کی اپنی سیاسی وابستگیاں اور ترجیحات ہوتی ہیں۔ ایمرجنسی کے بعد ایک نیانظام متعارف کرایا گیا جس کے تحت اخبارات نے صحافیوں کو خاص مدت کے لئے رکھنا شروع کیا۔ یہ صحافی کے کام کرنے کے جذبے اور جواہر لعل نہرو کی طرف سے منظورشدہ ورکنگ جرنلسٹ ایکٹ کے خلاف تھا جس میں انہیںملازمت کا تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ نہرو کا کہنا تھا ’’چونکہ انہیں آزادانہ اور غیرجانبداری سے کام کرنا ہوتا ہے لہٰذا گورنمنٹ اور مالکان کی ناراضگی کا خطرہ بھی موجود ہوگا‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’’مالکان کے پاس اس قسم کی طاقت ہوتی ہے جس سے وہ صحافیوں کو پریشرائز کرسکتے اور ہدایات نہ ماننے والوں کو برخواست بھی کرسکتے ہیں۔‘‘پھر لکھتے ہیں: ’’2008کے لوک سبھا الیکشن کے بعدلفافہ جرنلزم کی اصطلاح عام ہے جس میں صحافیوں کے لئے پیکیج متعارف کروائے گئے تھے تاکہ اپنی حمایت میں تصاویر اور کہانیاں شائع کروائی جاسکیں (نوٹ:یاد فرمائیں ہمارے ہاں یہ ٹرینڈ کب شروع ہوا اور اس کا موجد کون تھا؟) میں نے یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں اٹھایا اور اس پر تحقیق کیلئے کمیٹی بنوا دی۔ کچھ پارٹی رہنمائوں نے مجھے یقین دہانی کرادی کہ وہ خصوصی اخبارات اور صحافیوں کو ادا کی گئی رقومات کے اعدادو شمار کمیٹی کوپیش کریں گے۔ الیکشن کمیشن نے ایک کیس اٹھایا تھا تاہم پریس کونسل آف انڈیا نے الزامات کی تحقیق کے لئے ایک کمیٹی بنادی۔ پہلے تو رپورٹ کو دبایاگیا، پھراسے تبدیل کردیاگیا کیونکہ کمیٹی ممبران اپنے مالکان کے دبائو کی وجہ سے متفق نہ ہوسکے۔ اس رپورٹ کاکچھ حصہ اس طرح سے تھا۔حالیہ برسوں میں ہندوستانی میڈیا میں کرپشن نے جڑیں جما لی ہیں۔ انفرادی صحافیوں اور مخصوص میڈیا گروپس کی کرپشن کے ذریعے مخصوص لوگوں سے رقومات یا دیگر مفادات کے بدلے میں ان کے نقطہ ٔ نظر کے مطابق خبریں دی جاتی ہیں۔ خاص طور پر مخصوص صنعتی گروپس کو فائدہ پہنچانے کی خاطر خاص افراد کی ہدایات پر خبریں شائع اورنشر کی جاتی ہیں۔ صنعتی گروپس، سیاسی جماعتوں کے نمائندےاور الیکشن کے امیدواران سے معاملات طے کرکے ان کےحق میں رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے۔‘‘ قارئین!یہی حال بھارتی سیاست میں کرپشن سرایت کرجانے کابھی ہے کہ کس طرح بتدریج لالچی اورکرپٹ لوگ وہاں کی سیاست میں آتے چھاتےگئے۔ ہمارے ہاں ایسی باتوں کیلئے عموماً فوجی مداخلتوں کو مورد ِالزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں تو کبھی ’’ٹیک اوور‘‘ نہیں ہوا..... پھر بھی سیاست و صحافت میں اتنی مماثلت ہے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم حریف ہونے کے باوجود رویوں اورپرفارمنس میں اتنے ’’ہمشکل‘‘ اور’’ہم نسل‘‘کیوں نظر آتے ہیں؟ جہالت و ملاوٹ سے لے کر رشوت تک میں بھی مقابلہ برابر کا کیوں ہے؟ اس پر پھر کبھی بات کرینگے کہ آج کیلئے اتنا ہی کافی ہے۔

تازہ ترین