• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں جاری عشرہ (18-2008) جمہوریت (بدتر ہی سہی ) کے آخری جاری سال جو انتخابی سال کا آغاز بھی ہے میں عدلیہ اور میڈیا کی پذیرائی سے ٹاپ پر ڈائون احتساب بالاخر شروع ہو گیا۔اسٹیٹس کو ٹوحاوی سب سے بڑی سیاسی قوت کو اسے ماننا پڑا کہ کوئی چارہ نہ رہا، لیکن مان کر مٹھائی کھا کر بھی جب احتساب کا رخ اپنے حق میں نہ موڑا جا سکا تو اب ناگزیر بن جانے والے احتساب کے خلاف مزاحمت بصورت آلودہ سیاسی ابلاغ بھی جاری ہے جو صرف آلودہ نہیں تشویشناک بھی ہے ۔یہ بھی اسٹیٹس کو کی مکاری کا کمال نمونہ ہے۔فراہمی انصاف واقعی ایک مشکل ترین کام ہے ۔آئین و قانون موجود بھی ہو اور جیسا تیسا نافذ بھی اور معاشرہ موجود پاکستان جیسا تو اندازہ لگائیں کہ یہ کتنا کٹھن ہے ؟ہماری جیسی انتہائی پیچیدہ اور بےلچک ارتقا پذیر جمہوریہ میں اس سخت چیلنج کا مقابلہ ایک مخصوص درجے پر عدلیہ کےبا وقار جج صاحبان کی دیانت اور میڈیا کی آزادی اور جرات کے بغیر ممکن ہی نہیں ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ میں عوامی فلاح اور جمہوریت کے ان لازموں کا فقدان تو بہت ہے لیکن یہ اس سے خالی بھی نہیں، المیہ یہ ہے کہ بھاری بھر کم اسٹیٹس کو نے اسے دبا کر رکھا ہوا تھا اب جبکہ عوام کی بیداری، عدلیہ کے مطلوب تشخص کی موجودگی اور میڈیا کے نئے کردار، جس میں وہ گورننس کے معیار پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے، نے اس اسٹیٹس کو میں سے احتساب و انصاف کے ان مطلوب لازموں کو کشید کر علیحدہ کر دیا ہے جس کے خلاف ایک واویلا بشکل آلودہ دھمکی آمیز اور آتشیںسیاسی ابلاغ مچایا جا رہا ہے۔ تاہم شروع ہونے والے احتسابی و عدالتی عمل کی پاکیزگی بھی عیاں ہے جزوی فیصلہ آنے پر مٹھائی کی تقسیم سے جے آئی ٹی کے قیام کو تسلیم کرنے تک اس بات کی شہادت ہے کہ اس سے انکار سیاسی گھاٹے کے سوا کچھ نہیں، خواہ یہ مدعی پی ٹی آئی ہو یا زیر احتساب حکمران خاندان ۔
امر واقعہ ہے کہ میڈیا پاور سے کشید ہو کر اسٹیٹس کو کے گنجلک سے علیحدہ ہو کر احتساب و انصاف کی شدت سے مطلوب چوٹی کی قومی ضرورت اک بااعتبار احتسابی نوعیت کے عدالتی عمل میں ڈھل گئی ہے جس نے ’’کچھ نہ ہوگا ‘‘ مایوس یا مکار گروپس کو ایک انجانی مسرت اور خطرے سے دوچار کر دیا ۔ لہٰذا اچھے کی امید او رگھبراہٹ پاکستان کے موجود قومی سیاسی منظر پر نمایاں ہیں ۔ خدارا!جو ہو رہا ہے اسے سیاسی دھڑے بندی پارٹی بازی کی تنگ نظر سے نہ دیکھا جائے کہ یہ روایتی عملی سیاست سے بہت آگے کا معاملہ ہے ۔ پاکستان میں 7عشروں سے مطلوب سیاسی و جمہوری عمل ، پاکستان کے داخلی استحکام، آئین و قانون کی بالادستی، کھربوں کی کرپشن سے کروڑوں پاکستانیوں کو غربت و افلاس اور جہالت میں مدت سے جکڑے رکھنے، موجود اور آنے والی نسلوں کے تحفظ اور مملکت کی سلامتی کے پیرائے میں اسے دیکھنا ہو گا ۔ خصوصاً اسٹیٹس کو کے جن بینی فشریز ( جو فقط سیاست دان نہیں )نے اس کی اصلیت کو جانتے ہوئے بھی ناجائز خوشحالی عظیم عوامی و ملکی مفاد کو نظراندازکرکے قبول کی اور اولاد کی محبت کو فتنہ بنا لیا، وہ یاد رکھیں آج نہیں تو کل انہیں اسٹیٹس کو سے الگ ہو جانے والے کشیدہ جمہوریت و انصاف کی عوام دوست قوتوں کے سامنے بالاخر سرنگوں ہونا پڑے گا ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جاری عشرہ جمہوری تو نہیں حقیقی جمہوریت کی منزل کے حصول کی جدوجہد کے عشرے کے طور تاریخ پاکستان میں رقم ہو گا ۔ روایتی سیاسی قوتوں کے لئے یہ منجانب اللہ مہلت اور کفارے کا عشرہ تھا جس میں غالب سیاسی قوتوں نے اب خود راہ راست پر آکر ملک کو راہ راست پر ڈالنا تھا ۔ان کی خود اختیار کی گئی جلاوطنی سے واپسی بھی وکلاء کی عوامی بن جانے والی تحریک کے نتیجے میں ہی ہوئی ۔مال و دولت کے انبار ان کےاور ان کی اولاد کے پاس تھے ۔بغیر کسی جدوجہد کے آمریت کے تکبر سے جب فوجی وردی کو اپنی کھال سمجھنے والے آمر نے جب لال مسجد اور بلوچستان میں خطرناک مس ہینڈلنگ کرکے خود ہی اپنے جانے اور آپ کے آنے کی راہ ہموار کی تو آپ نے پھر پاکستان کو چراہ گاہ ہی جانا ۔ جب آپ کے سارے ماضی کے خلاف آئین و قانون برائے خاندانی استحکام و فلاح معاف ہو چکے تھے اور آپ پھر قابل حصول اقتدار قرار پا گئے تو کیا گنجائش تھی کہ ملک کو اندھیروں میں غرق کرکے لوٹ مار کی نئی مثالیں قائم کی جائیں ۔احتساب کی طرف آئے بھی تو فقط اقتدار چھیننے والے سابق جرنیلی صدر کا جس نے آپ کے ساتھ شریک اقتدار ہونے کے سودے پر این آر او کے آبِ عفو سے نہلا کر پاک کر دیاتھا ۔ن لیگ کے تیسری بار برسر اقتدار آنے پر رسپانس میں اتنا بھی نہیں بنتا کہ وہ کم از کم کرپشن اور صرف کرپشن سے پیدا ہونے والی ملک گیر تاریکیوں کا حساب تو سابقہ حکمرانوں سے لیتی، احتساب کا کوئی ایک علامتی قدم تو اٹھاتی جبکہ آپ کے اور ان کے پچھلے خون سابق آمر صدر سے گٹھ جوڑ میں معاف ہو چکے تھے ۔آج آئی پی پیز کا سرکلر ڈیڈ پھرو ہیں پہنچنے کو ہے جہاں آپ کی باری شروع ہونے پر تھا، اور جو گھپلے عوام سے زائد بل وصول کرکے لئے گئے اور لئے جا رہے ہیں اس پر ہی نہیں سابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے سابقہ دور کے 500ارب کے سرکلرڈیڈکی ادائیگی میں 170 ارب کی ادائیگی روکنے کو نظرانداز کرکے ان کی ادائیگی کے کیا معنی ہیں ۔جبکہ لوڈشیڈنگ پرواویلا بھی جاری ہے ’’پہلے سے بہتر ضرور ‘‘ ہے لیکن کس قیمت پر یہ بہتری عوام کے ساتھ گھپلوں سے ہی ممکن ہوئی نا ۔آپ نے کونسی با اعتبار اور نالج کی ایپلی کیشن اور ماہر ٹیکنو کریٹس کے ان پٹ سے کوئی واضح ، شفاف انرجی پالیسی بنائی ۔ اس سمت میں آپ کا ہر اقدام متنازع، مشکوک اور کارکردگی کے اعتبار سے ناقص نہ ہوا ؟ یہ ہوا تو اب قدرتی راہوں سے احتساب کی صورت نکل آئی ہے تو اسے بلاتعصب و امتیاز اسے جاری رہنے دیا جائے۔ اسے سبوتاژ کرنے کی کوششیں آپ کو نئی مشکلات اور ناقابل یقین نتائج سے دوچار کر سکتی ہے۔ یہ تجزیہ تو فقط الیکشن ایئر شروع ہونے پر انرجی بحران کے حوالے سے جو پی پی حکومت نے کھلی بدعنوانی پیدا کیا اور آپ نے اسے فقط اسے انتخابی مہم کے لئے استعمال کیا اور چبھتے سوال کے ساتھ آپ کی لوڈشیڈنگ کا تمام تر انحصار چینی سرمایہ کاری پر ہی رہا ۔ کیا پاکستان اور بیرون ملک پاکستانیوں میں کوئی کم انرجی ایکسپرٹ ہیں غور فرمائیں اتنے گمبھیر بحران کے لئے آپ نے اقتدار میں آکر انہیں یکسر نظرانداز کرکے کن کی مشاورت سے یہ بحران حل کرنے کا آغاز کیا تھا ایسے میں جو احتسابی عمل شروع ہوا ہے وہ قدرتی ہے جبکہ کہانی کوئی لوڈشیڈنگ تک ہی محدود نہیں یہ تو فقط ایک مثال ہے۔

تازہ ترین