• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واشنگٹن سے آنے والی خبریں پاک امریکی دوستی کے ایک اور سخت مرحلے کی طرف اشارہ کرتی محسوس ہو رہی ہیں۔ غیرملکی خبر ایجنسیوں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی زیرغور نئی پالیسی کے تحت پاکستانی سرزمین پر ڈرون حملوں میں اضافہ کرنے، اس کی امداد روکنے یا کم کرنے اور بڑے نان نیٹو اتحادی کے طور پر اسلام آباد کا درجہ کم کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ پچھلے سات عشروں کے دوران پاکستان امریکہ کے ساتھ جن فوجی اور غیرفوجی معاہدوں سے منسلک رہا، ان کا بڑا سبب قیام پاکستان کے وقت بلکہ اس سے پہلے سے نئے دہلی سے آنے والے ایسے بیانات اور نظام الاوقات کے اعلانات تھے جن سے نوزائیدہ مملکت کے وجود کو مٹانے کے عزائم کا اظہار ہوتا تھا۔ امریکہ کے ساتھ بغداد پیکٹ، سیٹو اور سنٹو جیسے معاہدوں کا مقصد پاکستان کا وجود مٹانے پر مصر ملک پر یہ واضح کرنا تھا کہ نئی مملکت تنہا نہیں، اس پر آزمائش کا وقت آیا تو اس کے اتحادی شانہ بشانہ نظر آئیں گے۔ دوسری طرف سوویت یونین اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے باعث واشنگٹن کے لئے بھی اس کے سوا چارہ نہیں تھا کہ وہ خطے میں اثر و رسوخ کا توازن برقرار رکھنے کیلئے پاکستان سے دوستی استوار کرے۔ اس دوستی سے پاکستان کو فوجی و اقتصادی امداد سمیت کئی فوائد ہوئے جن میں مسئلہ کشمیر پر مغربی ملکوں کی بھرپور حمایت بھی شامل ہے مگر یہ حمایت سلامتی کونسل کی قراردادوں تک محدود رہی۔ ان پر عملدرآمد میں اس سرگرمی کا فقدان رہا جو بعدازاں ریفرنڈم کی بنیاد پر مشرقی تیمور کو انڈونیشیا کے انتظام سے نکالنے اور سوڈان کے جنوبی حصے کو آزاد ملک کا درجہ دینے کے ضمن میں نظر آئی۔ سات عشروں پر مشتمل پاک امریکی دوستی کے دوران اتار چڑھائو کے کئی مراحل آئے اور انسانی فطرت کے مطابق دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے شکایات بھی پیدا ہوئیں مگر یہ دوستی ہر نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود برقرار ہے۔ امریکہ کو شکوہ ہے کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک سمیت دہشت گردوں کے اڈے موجود ہیں جبکہ پاکستانی افواج آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے اپنے علاقوں کو ان جنگجو عناصر سے بڑی حد تک پاک کرچکی ہیں جنہیں غیرملکی افواج کی افغانستان میں آمد کے وقت افغان سرزمین پرکچلنے کی بجائے پاکستان میں دھکیل کر بعض علاقوں پر ان کی عملداری قائم کی گئی تھی۔ پاکستانی قوم امریکہ کی دوستی کا دم بھرتی اور اسے مزید مستحکم کرنے کی خواہاں ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ 65ء اور 71ء کی جنگوں میں پاکستانیوں کو اپنے اس دوست ملک کے حوالے سے مایوسی کا سامنا پڑا جس سے آزمائش کے وقت بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ پاک امریکی دوستی کے ابتدائی برسوں میں پشاور کے قریب بڈھ بیر میں قائم امریکی اڈے سے جاسوسی کے لئے اڑنے والے ایک یوٹو طیارے کے روس میں گرائے جانے کے بعد ماسکو سے بگڑتے ہوئے تعلقات بعدازاں پاکستان کے مشرقی بازو کو کاٹنے کے بھارتی عزائم میں روس کی اعانت کا سبب بنے مگر اس واقعہ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اسلام آباد کو دوست ملک امریکہ کی طرف سے ایک ایسا بحری بیڑا بھیجنے کی طفل تسلیاں دی جاتی رہیں جو کبھی نہ آیا اور مشرقی پاکستان کا سقوط ہوگیا۔ واشنگٹن نے کئی مواقع پر پاکستان سے مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل کرانے کے جو وعدے کئے وہ تو پورے نہ ہوئے مگر مختلف اوقات میں پاکستان کو امریکی پابندیوں سمیت کئی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ صدر ٹرمپ ایک ذہین انسان ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ افغانستان میں لاکھوں غیرملکی فوجیوں کی آمد سے جو کامیابی حاصل نہیں ہوئی، وہ چند ہزار مزید فوجیوں کی آمد سے یا وسائل سے محروم اور مسائل میں گھرے ہوئے اسلام آباد سے مطالبات کرکے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کیلئے افغانوں سے ان کی نفسیات اور روایات کے مطابق مذاکرات کرنا ہوں گے جس کیلئے پاکستان پہلے بھی تعاون فراہم کرتا رہا اور اب بھی تیار ہے۔ پاکستان کو نظر انداز کرنے یا افغانوں کو مخصوص شرائط پر پیشگی آمادہ کرنے کی کوششیں نہ پہلے کامیاب ہوئیں، نہ آئندہ ایسی امید کی جا سکتی ہے۔

 

.

تازہ ترین