• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوچا تو تھا کہ اس بار کالم میںپانامہ کیس کے حوالے سے کچھ نہیں لکھوں گا، ایک تو پہلے ہی اس بارے میں بہت زیادہ گفتگو ہو چکی ہے اور دوسرا جے آئی ٹی کی جانب سے کی جانے والی میڈیا مانیٹرنگ کا ڈر بھی ستائے چلا جا رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی بدولت خطے کو درپیش نقصانات کے بارے میں لکھنے بیٹھا تو وٹس ایپ پر ایک دوست نے وسط جولائی کے لگ بھگ وزیر اعظم نواز شریف کی اقتدار کے ایوانوں سے رخصتی کی خبر دیتے ہوئے یہ پیش گوئی کی کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں عدالت عظمیٰ کے پاس نواز شریف کو نااہل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اب ایسے میں جب نواز شریف کے جانے کی ڈیڈ لائن بھی دی جانے لگی ہو، بھلا میرے ماحولیاتی تبدیلی کے کالم کو کون گھاس ڈالتا۔ کس کو اس بات کی پروا ہوتی کہ دیہات کے چھپڑوںکو پارکوںمیں تبدیل کرنے کا فیصلہ اچھا ہے ۔ فرانس کی ایک کمپنی سے لاہور کے پانی کو صاف کرنے کا معاہدہ ہو گیا ہے مطلب صاف ہے کہ واسا کا محکمہ بھی فارغ ہے۔ فیروزپور روڈ پر ٹریفک کی روانی کے لئے ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ہے، یعنی ٹریفک پولیس بھی ناکام ۔ ۔۔لکھنے کو تو یہ بھی جی چاہتا ہے کہ جے آئی ٹی سے تعاون نہ کرنے کی صورت میں جن سنگین نتائج کا سپریم کورٹ نے ذکر کیا وہ کیا ہو سکتے ہیں؟ کالم تو اس بات پر بھی لکھا جا سکتا تھا کہ عابد شیر علی کے حلقے میں تین روز سے بجلی غائب ہے اور عابد شیر علی کس وقت پریس کانفرنس کر کے عمران خان کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں؟ خادم پنجاب کا ایک سو ارب کا کسان پیکج بھی کالم کے لئے مواد فراہم کرتا ہے، جس سے فائدہ اٹھانے کے لئے کسان کے پاس موبائل نمبر ہونا لازمی ہے او راسے اہلیت کے مراحل سے گزرنے کے لئے مختلف مقامات پر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اپنی پانچ ایکڑ زمین کے لئے قرضے کاحق دار ہے۔ لیکن کیونکہ ہمارے ملک کے میڈیا کے لئے سیاست ہی اول و آخر ہو گئی ہے اس لئے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق پھر سے پانامہ کیس کے بارے میں کچھ گزارشات تحریر کر رہا ہوں۔
سب سے پہلا نکتہ جو شاید اس سارے شوروغل میں کہیں کھو سا گیا ہے وہ یہ ہے کہ بالفرض جے آئی ٹی دس جولائی کو سپریم کورٹ کے روبرو پیش کی جانے والی اپنی فائنل رپورٹ میں یہ تحریر کر دیتی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد لندن میں موجود فلیٹس کی ملکیت کے بارے میں ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیںاور چونکہ اس کیس میں بارثبوت شریف خاندان پر تھا اس لئے تسلی بخش منی ٹریل فراہم نہ کر پانے کی وجہ سے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو بے گناہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جب یہ رپورٹ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی تو یہ فیصلہ عدالت کے تین رکنی بنچ نے کرنا ہے کہ اس کے بعد کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ یہ کیس آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی کی شق تین میںدرج اختیارات کے تحت چلایا جا رہا ہے اس لئے معزز جج صاحبان کے لئے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو جے آئی ٹی کی رپورٹ پر براہ راست نا اہل قرار دے دیں۔ ہم فرض کئے ہوئے ہیں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو کوئی کلین چٹ نہیں ملنے والی اور منی ٹریل کی غیر موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے نہ صرف پارلیمنٹ کے فلور پر بلکہ قوم سے خطاب کے موقع پر بھی غلط بیانی سے کام لیا گیا اور اس بنیاد پر سپریم کورٹ انہیں نا اہل قرار دیدے گی۔ اس سارے بیانیے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ آئین کی رو سے کسی رکن قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے یا اس کی اہلیت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حاصل ہے۔ سیپریشن آف پاورز کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین کی بدولت آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے تحت نااہلی سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ یہ ضرور ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ حکم جاری کرسکتی ہے کہ وزیر اعظم کو غلط بیانی کرنے کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جائے لیکن کیا الیکشن کمیشن اس حکم پر فوری عملدآمد کرنے پر مجبور ہو گا یا اسے اپنے حصے کی کارروائی کرنے کا اختیار حاصل ہو گا؟ اگر الیکشن کمیشن اس سلسلے میں اپنی محکمانہ کارروائی کا طریقہ کار اختیار کرتا ہے تو پھر وسط جولائی کی ڈیڈ لائن تو بہر حال گزر ہی جائے گی۔ اگر سپریم کورٹ کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ صادر ہو بھی جاتا ہے تو بھی نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ریویو کی درخواست دینے کا حق موجود ہے، گو ریویو کی درخواست اپیل سے کہیں درجے کم افادیت رکھتی ہے لیکن پھر بھی عدالت کو اس درخواست پر کارروائی کرنا ہو گی۔ پہلے ہی وزیر اعظم کے قانونی مشیر اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل دس اے کے تحت اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ ہر شہری کو رائٹ آف فیئر ٹرائل دیا جائے گا،سپریم کورٹ ایک اپیل کورٹ ہوتے ہوئے بھی ٹرائل کورٹ کی طرح کیس کی کارروائی کر رہی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ اگر شریف خاندان کے حق میں نہ آئے تو سپریم کورٹ آف پاکستان منی لانڈرنگ اور اثاثہ جات کو چھپانے کے الزامات کی چھان بین اور کیسز کی رجسٹریشن کے لئے ملکی اداروں کو احکامات جاری کر دے گی۔ لیکن چونکہ ان کیسز کو پاکستان کے مروجہ قانونی نظام کے تحت پہلے ماتحت عدالتوں میں چلانا ہو گا اسی لئے ایک بار پھر سے وسط جولائی کی ڈیڈ لائن شاید پوری نہ ہو پائے۔ بہت سے لوگ جو یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ نواز شریف کیس میں کوئی فوری نوعیت کا فیصلہ آنےوالا ہے انہیں آنے والے دنوں میں شاید مایوسی کا سامنا کرنا پڑے۔ ابھی حالیہ دنوں میں ہی اسلام آباد میں گھریلو ملازمہ پر ہونے والے تشدد پرسپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے سو موٹو ایکشن لیا گیا لیکن اس مقدمے کے ملزمان کو سزا دینے کے عمل کا آغاز سپریم کورٹ نے خود نہیں کیا بلکہ کیس کو سیشن کورٹ کے حوالے کر دیاگیا۔ اگر سپریم کورٹ ایک عام شہری کے رائٹ ٹو فیئر ٹرائل کا احترام کر سکتی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو اس حق سے محروم کر دیا جائے ؟
یہ سب باتیں تجزیوں پر مبنی ہیں، ایک نقطہ نظر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نواز شریف پر الزام آئے ہی نا اور ان تمام لوگوں کو انتہائی صدمہ پہنچے جو کھیل کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ فلیٹس تو ان کے بچوں کے نام ہیں، اس لئے ممکن ہے عدالت محض ان کے بچوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے ۔
آنے والے دنوں میں اور بہت سی چیزیں بھی واضح ہو جائیں گی، یہ بھی عین ممکن ہے کہ عید کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم کے خلاف سڑکوں پر تحریک چلانے نکل پڑیں تاکہ وزیر اعظم پر پریشر بڑھایا جائے ۔یہ حربہ کتنے کامیاب ہوتا ہے اور کون کون سی قوتیں اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈالتی ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن یہ کھیل فل الحال جولائی یا اگست تک ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔

 

.

تازہ ترین