• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہانی بہت الجھ کر رہ گئی ہے!
رائٹر خود پریشان ہے کہ اسے اب کیا موڑ دے، اس کا کیا انجام دکھائے، کس کردار کو ولن بنا کر پیش کرے، کسے ہیرو ثابت کرے، یا سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دے۔میں خود بھی کہانیاں لکھتا رہا ہوں اور اس نوع کے شش و پنج سے گزرا ہوں مگر یہ مرحلہ تب آتا تھا جب مجھے مشورے دینے والے زیادہ ہوجاتے تھے، کوئی دوست کہتا تھا کہ تم نے کہانی کے آغاز ہی میں قاری پہ ظاہر کر دیا ہے کہ تم اس کا انجام کیا کرنے والے ہو اور کسی دوست کی رائے یہ ہوتی تھی کہ تم نے کہانی میں کرداروں کی بھرمار کر دی ہے، اب ان سب کو اختتام تک کیسے لے کر جائو گے، میں ان دوستوں کے یہ مشورے بلکہ آراء سنتا تھا اور سوچتا تھا کہ میں نے یہ کہانی خود مکمل کرنے کی بجائے ان کے سپرد کیوں کر دی لیکن انسان جب یہ غلطی کر بیٹھے تو پھر اس کا خمیازہ الجھن کی صورت میں اسے بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ دراصل کہانی لکھنے والے کو چاہئے کہ جب وہ کاغذ قلم لے کر بیٹھے تو کسی سے مشورہ نہ کرے اور نہ کسی دوست کی ڈکٹیشن لے بلکہ ہر کردار کے ساتھ انصاف کرے ، کرداروںکے ساتھ انصاف ہو گا تو کہانی ہٹ ہو جائے گی اورمصنف کی بلے بلے ہو گی لیکن ا گر اس نے کرداروں کی ٹریٹمنٹ قبولیت عام یا قبولیت خاص کے نقطہ نظر سے کی تو یہ ایک ویسی ہی گھسی پٹی کہانی ہو گی جو ہم پہلے بھی کئی بار پڑھ چکے ہیں اور ان کے مصنفین کے لئے دل میں نفرت کے جذبات رکھتے ہیں اور ادب میں بھی ان کا شمار ہے ادیبوں ہی میں ہوتا ہے اور یوں انہوں نے ایک عامیانہ سی کہانی یا چالو قسم کی کہانی لکھ کر اپنے پبلشر کو خوش بھی کر دیا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ وہ اپنے لاکھوں جینوئن پڑھنے والوں کی نظروں سے گر جاتا ہے!
یہ جس کہانی کی بات میں کر رہا ہوں کہ یہ بہت الجھ کر رہ گئی ہے تو اس کہانی کا رائٹر میں خود ہوں میں ایک صاف ستھری کہانی لکھنا چاہتا تھا مگر مجھ پر مختلف پبلشرز کی طرف سے دبائو پڑنا شروع ہو گیا کہ اگر کہانی ہمارے پاس بیچنی ہے تو ویسی ہی کہانی لکھو جیسی آج کل چند ٹی وی چینلز پر دکھائی جا رہی ہیں۔ لوگ یہ کہانیاں بہت شوق سے دیکھتے ہیں وہ زمانہ گزرگیا جب سچے اہل قلم کی قدر ہوتی تھی اب ولن کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے ،برائی کو اچھائی کے طور پر دکھایا جاتا ہے،اب مقفیٰ و مشجعٰ زبان نہیں چلتی ،گالی گلوچ بھی کہانی کا تقاضا سمجھا جاتا ہے ولن کی دھمکیوں اور اس کی بڑھکوں کو اس کی بے باکی اور ظالم طبقوں کو للکارنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ان پبلشرز نے مجھے بہت سہانے خواب بھی دکھائے ہیں مگر میں ان سے کہتا ہوں کہ سب کچھ یہیں رہ جانا ہے باقی صرف اچھا یا برا نام ہی رہ جاتا ہے۔ اس پر وہ ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ ماضی میں جن لوگوں نے نیک نامی کمائی، وہ تو مر کھپ گئے اب یہ نیک نامی ان کے کس کام کی ۔ اور جنہوں نے کہانی کے کرداروں کے فیصلے نیک نامی کی لغویات میں الجھے بغیر لکھے انہوں نے زندگی بھر عیش کی ، مرنے کے بعد یا ان کی زندگی ہی میں تم ان کے کرداروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی بنیاد پر ان پر لعنتیں بھیجتے رہے اور تھو تھو کرتے رہے تو اس سے انہیں کیا فرق پڑا؟ تم نے ان کا کیا بگاڑ لیا میرے پبلشر مجھ سے کہتے ہیں کہ اچھے بچے بنو، اپنی کہانی کا انجام وہی کرو جو ہم کہتے ہیں !
سو جو کہانی میں لکھنے بیٹھا تھا وہ الجھ کر رہ گئی ہے پبلشر مجھے سوچنے کا وقت ہی نہیں دے رہا، اس نے مجھے ایک ٹائم خرید دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے اندر اندر مسودہ اسے مل جانا چاہئے ! میں سوچ میں پڑ گیا ہوں بلکہ سچی بات یہ ہے کہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ کہانی پبلشر کی خواہش کے مطابق ہی لکھوں گا کہ مجھے علم ہے نیک نامی یا بدنامی زیادہ دیر تک یاد نہیں رکھی جاتی اور اگر رکھی بھی جاتی ہے تو میری بلا سے، ویسے بھی پبلشر نے مجھے یقین دلایا ہے کہ کہانی کی اشاعت کے بعد وہ بڑی رقم اس کی تشہیر پر خرچ کرے گا اور اس کے علاوہ اس پر بہترین تبصرے بھی لکھوائے گا، اس نے مجھے بتایا ہے کہ کچھ نقادوں سے اس کا معاملہ بھی طے ہو گیا ہے سو جو کہانی میرے ذہن میں الجھی ہوئی تھی وہ سلجھ گئی ہے۔ اب میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا ’’فیصلہ‘‘ کر چکا ہوں، قارئین اس کی اشاعت کا انتظار کریں!

 

.

تازہ ترین