• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن ِ عزیز کی خارجہ پالیسی میں موجود خامیوں پر ان کالموں میں اظہارِ خیال کیا جاتا رہا ہے یہ امر اطمینان بخش ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنا خاصا وقت دفترِ خارجہ میں گزارتے ہوئے تفصیلی بریفنگ ہی نہیں لی اعلیٰ سطحی اجلاس میں اظہارِ خیال بھی کیا ہے۔ بلاشبہ ہماری خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کہیں اور نہیں دفترِ خارجہ میں ہی ہونی چاہئے اور اس میں اول و آخر ترجیح پاکستان کے عوامی و قومی مفاد کو حاصل ہونی چاہئے کوئی ادارہ خواہ کتنا ہی طاقتور یا مقدس کیوں نہ ہو اس کا مفاد پاکستانی عوام یا پاکستانی قوم کے دیرپا و مستقل مفاد سے اوپر نہیں ہے۔ لیکن اس اہم فریضہ کی انجام دہی کے لئے غور و خوض کسی روز بھی کیا جا سکتا تھا۔ اس روز عوامی قیادت کا پاراچنار پہنچنا ضروری تھا کہ مسئلہ محض پاراچنار کے شہیدوں کا نہیں تھا.....قدرتی یا ناگہانی آفت سے اگر کوئی قومی نقصان ہوتا ہے تو وہ ہر پاکستانی کے لئے قابلِ فہم ہے لیکن اگر کوئی تنظیم یا فکری گروہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی مخصوص فکری و نظری طبقے کو ٹارگٹ کرتا ہے تو یہ قطعاً ناقابلِ قبول ہونا چاہئے اس پر عوامی احتجاج یا غم و غصے کی جو بھی جائز صورت ہو وہ قابلِ فہم ہونی چاہئے۔ وزیراعظم نواز شریف کی قوم کے لئے بلاتخصیص و تمیز جتنی بھی دردمندی ہے وہ اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے لیکن اُن کے متعلق عوامی سطح پر اس نوع کا تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ عربستان سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنی جلاوطنی کا طویل عرصہ وہاں گزارا ہے ملک کے اندر بھی اس سوچ کے بہت سے حلقے نسبتاً اُن کے زیادہ قریب ہیں وہ اگرچہ عرب و عجم کے متعلق متوازن پالیسی اور سوچ کے حامل ہیں اور اس پر بطور قومی پالیسی کاربند بھی ہیں لیکن اس کا اظہار عوامی سطح پر ہوتے رہنا چاہئے۔
آئل ٹینکر کی آگ میں مرنے والوں کے لئے انہوں نے 20لاکھ فی کس کی ادائیگی کی ہے جبکہ پاراچنار کی دہشت گردی کا نشانہ بن کر شہید ہونے والوں کے لیے 10لاکھ فی کس کا اعلان ہوا ہے۔ وطنِ عزیز کے تمام شہری جب برابر ہیں تو اُن کے ساتھ روا رکھی جانے والی برابری نظر بھی آنی چاہئے۔ اگرچہ احمدپور شرقیہ میں جانیں گنوانے والوں سے پوری قوم کو دکھ اور ہمدردی ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ کسی کا گرا ہوا تیل لوٹنے کیوں گئے تھے؟ جمعۃ الوداع کے روز پارا چنار کے بازار میں عید کی خریداری کرنے والے قطعی بے گناہ لوگ تھے جنہیں مذموم مقاصد کے تحت ٹارگٹ کر کے مارا گیا۔ یہ دردناک ٹارگٹ کلنگ اپنے پیچھے دکھ بھری داستان کا طویل پس منظر رکھتی ہے۔ اس موقع پر جنرل باجوہ کا یہ اظہارِ خیال قابلِ ستائش ہے کہ فرقے یا مسالک کچھ بھی ہوں تمام شہید اور زخمی ہمارے لئے برابر ہیں۔ ہم سب پاکستانی اور مسلمان ہیں۔ مسلمان نہ بھی ہوں خواہ غیر مسلم ہی ہوں اُن کا خون بھی ہمارے لئے ایک جیسا ہے البتہ ہمارے خیال میں سانحہ پاراچنار کے لئے ’’عظیم قومی نقصان‘‘ کے الفاظ درست نہیں ہیں۔ ہمارے بہت سے صحافی بھی اس نوع کی لفظی بداحتیاطی کرتے رہتے ہیں جس کی اصلاح ہونی چاہئے ’’عظیم‘‘ کا لفظ اعلیٰ کاز سربلندی یا اچیومنٹ کے لئے استعمال ہونا چاہئے جبکہ نقصان یا تباہی کے لئے ’’عظیم‘‘ کی بجائے ’’بدترین‘‘ کا لفظ آنا چاہئے۔
بہرحال یہ امر بڑی حد تک تسلی بخش ہے کہ پاراچنار کے مظلومین کی کچھ شنوائی ہوئی ہے۔ کانسٹیبلری کی فائرنگ سے شہید ہونے والوں کا معاوضہ محکمہ دے گا اور فائرنگ کرنے والوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ بھی چلایا جائے گا۔ دہشت گردی کے سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ دھرنے والوں کے مطالبے پر ایف سی کمانڈنٹ کو تبدیل کر دیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر لاہور اور کراچی کی طرح پاراچنار میں سیف سٹی کیمروں کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے ۔ اس سب کے باوجود اصل چیز فرقہ وارانہ مذہبی منافرت کا خاتمہ ہے جس کے متعلق جنرل باجوہ نے بروقت یہ کہا ہے کہ ’’مذہبی فرقہ واریت کی سوچ کا مقابلہ ہمیں متحد ہو کر کرنا ہو گا‘‘.....
بات خارجہ پالیسی سے شروع ہوئی تھی جہاں آج ہمیں عرب و عجم کے تناؤ کا مسئلہ درپیش ہے وطنِ عزیز میں ہر دو خطوں کے گیت گانے والے بکثرت موجود ہیں اس لئے پاکستان اس بات کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اس حساس مسئلے پر تھوڑی سی بے اعتدالی کا بھی مرتکب ہو، اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ سعودی عرب کے ہم پر بڑے احسانات ہیں۔ پاکستان کی ہر مشکل میں سعودی عرب نے ہماری امداد کی ہے۔ لاکھوں پاکستانیوں کو ارض مقدس میں روزگار نصیب ہوا ہے جس کے پاکستانی معیشت پر ثمرات واضح ہیں لیکن ایران بھی ہمارا برادر ہمسایہ مسلم ملک ہے جس کی ناراضی ہم کسی صورت سہنے کے قابل نہیں ہیں۔ افغانستان سے چاہے ہمارے ایک سو ایک اختلافات بھی پیدا ہو جائیں وہ ہمارے بھائی ہی رہیں گے کبھی دشمن قرار نہیں پائیں گے۔ اس طرح روس سے تعلقات پر بھی وزیراعظم نے اظہار اطمینان کیا ہے۔ جہاں تک چین جیسے ہمسائے کا معاملہ ہے اس پر کیا سویلین کیا عسکری سب باجماعت ہمالہ سے اونچے بحرہند سے گہرے اور شہد سے میٹھے کی گردان پر رطب اللسان ہیں ۔
مسئلہ آجا کر اگر کہیں اٹکتا ہے تو وہ ہے بھارت، جس کے ساتھ ہم صدیوں نہیں ہزاروں سالوں پر محیط مشترکہ تاریخ رکھتے ہیں جو ہمارے قومی وجود کا ہزاروں سالوں تک لازمی حصہ رہا ہے۔ آج بھی ہم سے زیادہ مسلمان ہند کی دھرتی کے باسی ہیں۔ مشترکہ تہذیب و تمدن کے کیا کہنے ہمارے تو موسم، دریا، زمینیں اور نسلیں تک باہم مکس ہیں ۔ لیکن افسوس طاقتوروں نے کشمیر کے باعث ہمیں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا چھوڑا ہے حالانکہ تمام طاقتور حلقے بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایٹمی قوت بننے کے باوجود ہم بھارت سے طاقت کے زور پر ایک انچ زمین بھی نہیں چھین سکتے اور نہ ہی وہ چھین سکتا ہے، تو پھر ایک دوسرے کو انگلیاں چبھونے کا حاصل؟ کم ازکم اہل دانش کے شعور سے تو یہ گتھی ماورا ہے۔ اہل سیاست و طاقت کی بدھی کا وہی بتا سکتے ہیں۔
واشنگٹن میں ٹرمپ مودی ملاقات کا لبِ لباب کیا ہے؟ یہی ناں کہ مسئلہ کشمیر گول کر دیا جائے جس پر وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے اور یہ تشویش خالصتاً پاکستانی نقطہ ٔ نظر سے بجا ہے۔ دنیا میں امریکہ ہی تو وہ واحد طاقت رہی ہے جو کم ازکم انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پر ہی کشمیر ایشو پر کبھی ہلکی کبھی اونچی آواز اٹھاتا رہاہے۔کیا امریکہ کی ہمارے لئے جو گرمجوشی تھی اس کی جگہ انڈیا نے لے لی ہے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں یہ یقیناً ہمارے لئے گھاٹے کا سودا ہے۔ قومی سطح پر جس کے متعلق احساس زیاں ہونا چاہئے اور اس کا حل بھی نکالا جانا چاہئے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ بدلے ہوئے حالات میں روس کی حیثیت بہرحال سوویت یونین جیسی نہیں ہے اور انڈیا سے اس کا تعلق آج بھی ہم سے بہتر ہے..... سینٹرل ایشیا اور شنگھائی تعاون تنظیم کا باضابطہ حصہ بننا اگرچہ ہمارے لئے خوش آئند ہے لیکن بھارت اور افغان مزاحمت کے ساتھ اس کے ثمرات مفقود ہیں..... کیا موزوں نہیں ہوگا کہ اس سب کچھ کو بہتر بنانے کے ساتھ ہم بھارت دشمنی کے عنصر کو خارجہ پالیسی سے نکالتے ہوئے نہ صرف سارک کو متحرک کریں بلکہ کشمیر ایشو پر مذاکراتی ٹیبل کے علاوہ دیگر تمام آپشن کالعدم قرار دے دیں اس سے نہ صرف عوامی تعمیر و ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی بلکہ آئین اور جمہوریت بھی مضبوط ہوں گے۔ ہم ذرا اس خوشگوار لمحے کا تصور تو کریں جب ہماری دوستی سب سے اور دشمنی کسی سے نہیں ہوگی۔ ہم دنیا میں ایک خوشحال قوم اور بڑی معاشی طاقت بن کر ابھریں گے۔ اس کے برعکس بھارت اپنے وسائل چائنہ دشمنی میں جھونکتا چلا جائے گا جبکہ اندر سے بڑھتی ہوئی آبادی اسے کھا رہی ہوگی۔ ایسے میں وہ سوویت یونین بنے گا اور ہم جاپان۔

تازہ ترین