• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب حقائق شور و غل، احتجاج اور لعن طعن کی بھینٹ چڑھ جائیں تو سچ اور جھوٹ کا سراغ لگانا مشکل ہوجاتا ہے اور شاید شور و غل اسی لئے برپا کیا جاتا ہے کہ لوگوں میں سچ اور جھوٹ کی تمیز ہی ختم ہوجائے۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ بعض موضوعات قومی افق پر اس طرح چھاجاتے ہیں کہ ان کے علاوہ اور کوئی موضوع سوجھتا ہی نہیں اور اگر کسی اور موضوع پر طبع آزمائی کی بھی جائے تو لوگ اسے بے وقت کی راگنی قرار دے کر پڑھنے سے گریز کرتے ہیں۔ کچھ عرصے سے پاناما اور جے آئی ٹی کا جادو اس طرح چھایا ہے کہ تجزیہ نگاروں کا مسلسل موضوع بن کر رہ گیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا بھی معاملہ دلچسپ ہے کہ الفاظ کے باطن میں جھانکیں تو کہیں کسی مخصوص گروہ کی محبت چھلکتی نظر آتی ہے اور کہیں مخالفت کا الائو بھڑکتا نظر آتا ہے، انصاف کم کم اور اپنےپسندیدہ گروپ کی اندھی حمایت بہت زیادہ۔ گروہی سیاست کے شاہکار الزام دیتے ہیں کہ خزانوں کے منہ کھول دئیے گئے ہیں، قلموں اور زبانوں کو موتیوں سے بھردیا گیا ہے، بھیڑ اور بکریوں کی مانند انسانوں کو خرید لیا گیا ہے۔ رب جانتا ہے یہ الزام کس قدر درست اور کس قدر مخالفت کو برداشت نہ کرنے کا شاخسانہ ہے لیکن بہ حیثیت قاری میرا تجربہ شاہد ہے کہ الفاظ خود بولتے ہیں، تحریر الزامات کی خود چغلی کھاتی ہے اور پس پردہ ہاتھ کا راز فاش کرتی ہے۔ آج کا قاری اس قدر’’معصوم‘‘ نہیں کہ تحریر یا تقریر کے پس پردہ محرکات نہ دیکھ سکے، جھکائو نہ دیکھ سکے اور بکائو مال کی قیمت کا اندازہ نہ کرسکے۔ اس لحاظ سے آج کا قاری بذات خود منصف اور جج ہے اور الفاظ کے دامن میں سچائی ڈھونڈھ لیتا ہے۔ لکھاری اور لعن طعن کرنے والے’’بازاری‘‘ شاید قارئین اور ناظرین کی اس صلاحیت سے پوری طرح آگاہ نہیں، ورنہ کھل کھیلنے سے قبل تھوڑی سی بریک لگالیں اور احتیاط کا دامن مضبوطی سے پکڑلیں تاکہ ان کے دلائل اور محرکات کا راز فاش نہ ہونے پائے۔ دراصل پاناما نے اسی ایک بڑی خرابی کو جنم دیا ہے کہ ہر شے دائو پہ لگادی ہے حتیٰ کہ احتیاط، شرم و حیا، بھرم قائم رکھنے کی خواہش اور انصاف کا ڈھونگ رچانے کی کوششوں کو بھی یوں دائو پہ لگایا ہے کہ گویا ہر شے ’’بکائو مال‘‘ ہے۔ میرے نزدیک یہ ایک ایسا سانحہ ہوا ہے جس کی قوم کو طویل مدت تک قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
اس طوائف الملوکی، ہنگامہ آرائی اور جذباتی فضا میں لکھنے سے تائب ہو کر میں کچھ روز سمندر کے کنارے پانی اترنے اور چڑھنے اور جوار بھاٹا کے مناظر دیکھتا رہا اور ان کے مستقبل کے مضمرات پر غور کرتا رہا۔ میں اپنی ستر سالہ ملکی تاریخ کا عینی گواہ اور طالبعلم ہوں۔ میں نے اپنی نگاہوں کے سامنے اسی طرح کے بہت سے ہنگامہ خیز مناظر دیکھے ہیں جن کے بارے میں تاثر یوں ملتا تھا یا محسوس یوں ہوتا تھا جیسے یہ فیصلہ کن مرحلہ ہے اور یہ تاریخ کا رخ موڑ دے گا یا ہمارے قومی مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرجائے گا۔ سچ یہ ہے کہ ہر بار قوم کی امیدیں خاک میں ملیں، ا ندازے ہاتھ ملتے رہ گئے اور حالات کا مداری تماشا دکھا کر رخصت ہوگیا۔ ان سے نہ قوم نے کوئی سبق سیکھا،نہ قومی زندگی اور رویوں پر کوئی مثبت اثرات مرتب ہوئے، نہ حالات کا رخ بدلا اور نہ ہی ہماری کشت ویراں میں بہار کے پھول کھلے۔ جو حضرات اس بار پاناما کے حوالے سے اور عدلیہ کے فیصلوں سے یہ نتیجہ نکالے بیٹھے ہیں کہ اس سے ملک میں کرپشن یا لوٹ مار یا رشوت خوری کے کلچر کی حوصلہ شکنی ہوگی اور اس ایک فیصلے سے ملک میں انصاف اور شفافیت کی نہریں بہنے لگیں گی انہیں یہ مشورہ دینے میں کوئی حرج نہیں کہ خدارا پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کو پھر سے پڑھو۔ ہم نے اس قسم کے ہر ہنگامے، ہر بڑی تبدیلی اور ہر غدر کے برپا ہونے کے بعد’’ریٹ‘‘ بڑھتے دیکھے ہیں اور وارداتوں کے طریقے زیادہ سائنٹیفک اور پختہ ہوتے دیکھے ہیں۔ اب تو نوبت ایں جارسید کہ چور چوری کرتا ہے تو ساتھ ساتھ’’کُھرے‘‘ کے نشانات بھی مٹاتا جاتا ہے تاکہ کھوجی اس تک پہنچ نہ سکے اور اسی سانحے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ چور اس قدر ڈھیت اور’’نادیدے پن‘‘ کا شکار ہوگئے ہیں کہ انہیں نہ خوف خدا ہے اور نہ ہی خوف مخلوق خدا۔ 6کروڑ ڈالر کامبینہ کمیشن سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں پڑا بول رہا تھا کہ میں چوری کا مال ہوں۔ اس واردات کے ایک نہیں، بہت سے ثبوت بھی موجود تھے۔ بین الاقوامی پریس ایس جی، کوٹیکنا سے لے کر فرانسیسی آبدوزوں تک مبینہ گھپلوں کا نہ صرف راز فاش کرتا رہا بلکہ ہمارے قومی مقدر پر واویلا بھی کرتا رہا لیکن اس کے باوجود ہم نے انہی سیاسی کرداروں کو پھر خزانے کی رکھوالی پر بٹھا دیا۔ اس بار بھی کہا جاتا ہےکہ انہوں نے خوب ڈھٹائی سے لوٹ مار مچائی۔ عدلیہ نے جے آئی ٹی نہ بنائی کہ جے آئی ٹی تو ثبوت ڈھونڈھنے کے لئے بنائی جاتی ہے۔ یہاں تو ثبوت گلی کوچوں میں اور غیرممالک میں اس قدر نمایاں تھے کہ انہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس سے قوم کو کیا ملا ۔ ہمارے حکومتی اور معاشرتی کلچر میں کیا تبدیلی آئی؟ کیا اس سے رشوت اور کمیشن خوری کو بریک لگی؟ صرف یہ ہوا کہ وہ پارٹی پنجاب میں الیکشن ہار گئی اور مرکز میں دوبارہ برسراقتدار نہ آسکی۔ پنجاب میں تو وہ 2008کے انتخابات میں بھی اکثریت حاصل نہ کرسکی تھی اور 2013میں تو مسلم لیگی قیادت ہمدردی کی لہر پر سوار ہو کر میدان میں نکلی تھی، اسے بہرحال پنجاب میں انتخابات سویپ کرنے تھے۔ یقیناً سوئٹرز لینڈ کے بنکوں میں مبینہ طور پر پڑے ڈالر اور سرے محل جیسےا سیکنڈلز نے بھی پی پی پی کی شکست میں کچھ حصہ ڈالا ہوگا لیکن سندھ جیسے اہم صوبے میں کیا ہوا؟ 2013کے انتخابات کے چند ماہ بعد میرے ایک مہربان بزرگ نے کہا تھا کہ یہ ذلیل و رسوا ہوں گے۔ پاناما نے وہ کام کردکھایا ۔ ساتھ ہی جے آئی ٹی کی کریڈیبلٹی بھی متاثر ہوئی۔ عوامی نگاہوں میں آنے والا فیصلہ کسی حد تک مشکوک ٹھہرا۔ سیاست میں ذلت و رسوائی سیاسی کھیل کا حصہ تصور ہوتی ہے اور اکثر یہ رسوائی مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر ہمدردی کی لہر کا روپ دھار لیتی ہے۔ سچ پوچھو تو مجھے اس کے ہمارے قومی مستقبل پر کوئی دیرپا اثرات مرتب ہوتے نظر نہیں آتے نہ ہی اس کے بطن سے کوئی تبدیلی جنم لیتی دکھائی دیتی ہے۔ ہوسکتا ہے میری نظر کمزور ہو یا ہماری تاریخ کے مطالعے نے مجھے’’یاسیت‘‘ اور ’’قنوطیت‘‘ کاٹیکہ لگادیا ہو؟؟

تازہ ترین