• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اس وقت سیاسی بھونچال سے گزر رہا ہے، سپریم کورٹ، سیاستدانوں اور حکمرانوں کے معاملات باریک بینی سے دیکھ رہی ہے۔ پانچ میں سے دو جج صاحبان نے وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دیا تو تین جج صاحبان نے مزید تفتیش کو ضروری سمجھ کر ایک تحقیقاتی ٹیم مرتب کردی، اس ٹیم نے 10جولائی 2017ء کو جو رپورٹ پیش کی اس میں مزید انکشافات کئے گئے، جس کو وزیراعظم اور ان کی کابینہ نے یکسر رد کردیا اور اُسے یکطرفہ اور ردی قرار دے دیا، تاہم اس ٹیم کی تفتیش کی روشنی میں کئی اقدامات کئے گئےاور معاملات پر بھی فیصلے کئے گئے اور مزید کارروائی کے لئے 17 جولائی کی تاریخ مقرر کردی، اِس کے بعد ایک طرف شادیانے بجائے گئے مگر چار روز ہی گزرے تھے کہ سپریم کورٹ نے ایک پارٹی کے سربراہ کو بھی یہ کہا کہ اپنی دولت، جائیداد کے بارے میں ثبوت فراہم کریں کہ اُن کی جائیداد جائز آمدنی یا کس طرح بنی، اس کے بعد انہوں نے جشن منانے کا فیصلہ ترک کر دیا۔ اب صورت حال یوں ہے کہ وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ مشکلات کا شکار ہیں اور شاید ایک ہی کشتی کے مسافر، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کے پاس کئی آپشنز تھے کہ وہ نئے انتخابات کرا دیتے، اپنی پارٹی میں سے کسی کو وزیراعظم بنا کر خود رہنما بن جاتے، ایسے رہنما جو مکمل طور پر وزیراعظم کو اپنے حکم سے چلاتے ہیں، جیسے آصف علی زرداری کررہے ہیں، مگر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نے استعفے نہ دینے اور اپنا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ اُن کے کئی وزراء شعلہ بیانی کی وجہ سے سپریم کورٹ کے نوٹس میں آگئے، یہ وقت کی ضرورت تھی کہ شعلہ بیانی کی بجائے دلائل اور تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا۔ ایک جذباتی سینیٹر تو حد سے آگے بڑھ گئے، دھمکیاں دے ڈالیں اور اب مشکلات سے دوچار ہیں۔ کسی بھی آدمی کو ہوس اقتدار یا صاحب اقتدار کی حمایت میں اتنا آگے نہیں جانا چاہئے کہ دستور اور قانون کی حدود و قیود کو پار کر ڈالے، پھر مشیروں اور وزیروں کو صائب مشورہ دینا چاہئے، جیسا کہ شیخ سعدیؒ نے اپنی ایک حکایت میں لکھا ہے کہ بادشاہ وقت نے ایک مجرم کو پھانسی پر لٹکانے کی سزا دی تو اس ملزم نے بادشاہ کو بددعائیں اور بُرا بھلا کہا، بادشاہ نے سن تو لیا مگر اپنے مشیر سے پوچھا یہ شخص کیا کہہ رہا ہے، ایک نیک مصاحب نے کہا کہ وہ آپ کو دُعا دے رہا ہے، اس پر دوسرے مشیر نے کہا کہ ہم جیسے مصاحبین کو زیب نہیں دیتا کہ بادشاہ کے سامنے سوائے سچ کے کچھ اور بولیں، اس شخص نے بادشاہ کو بُرا بھلا کہا اور یہ آپ کو غلط بات بتا رہا ہے، بادشاہ نے اس کی سرزنش کی اور کہا کہ سزا سنائے جانے والے شخص نے جو کچھ کہا میں نے خود بھی سن لیا تھا مگر وہ مشیر مجھ سے نیکی کرانا چاہتا تھا، یہ مثال میں نے اس لئے تحریر کی کہ اپنے ممدوح لیڈر کو ایسی راہ دکھانا چاہئے جس سے وہ حالات پر قابو پا لے، نہ کہ حالات کے دلدل میں پھنستا چلا جائے۔ اس وقت وزرا اور مشیران کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ایسا راستہ نکالنا چاہئے جو وزیر اعظم کی مشکلات کا خاتمہ یا کم کرے، کیونکہ پاکستان کو اس وقت استحکام کی ضرورت ہے، اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی بحران نہ پیدا ہو اور دستور کے عین مطابق کام ہو، عالمی ایجنڈا یہ ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے، عالمی اخبارات یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹے تو ملک کی ترقی رک جائے گی، اگرچہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پر سب کو اتفاق ہے مگر اس کی کافی ضروریات اور وعدے نواز شریف کے ہی علم میں ہیں، اس لئے اس پر بھی کچھ اثر پڑ سکتا ہے تاہم جہاں عدالتیں انصاف کررہی ہوں اور قائم ہوں تو ملک کو خطرہ نہیں ہوتا۔ دوسری عالمگیر جنگ کے وقت جب جرمنی نے حملہ کردیا تو برطانیہ کے اس وقت کے وزیراعظم ونسٹن چرچل نے پوچھا تھا کہ کیا ہماری عدالتیں کام کررہی ہیں، اگر وہ انصاف کررہی ہیں تو ہم ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اس وقت یہ خوش آئند بات ہے کہ وزیراعظم نے جے آئی ٹی کی رپورٹ چیلنج کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے ہی رجوع کرنے کا فیصلہ کیا جس سے ان کا عدالتوں پر اعتماد کا اظہار ہوتا ہے، اس لئے کہ خراب سے خراب حالات میں بھی عدالتوں کو کام کرنے دینا چاہئے اور اُن کے فیصلوں کو مان لینا چاہئے کیونکہ اس طرح ملک میں نظم و ضبط رہتا ہے اور انتشار نہیں پھیلتا۔ انتشار کی صورت میں کوئی بھی غلط فیصلہ ہوسکتا ہے جوسم قاتل ہے، ظاہری دشمن ہماری صفوں میں گھس کر اس معاملے کو متنازع اور عدلیہ کو الزام دینے کی کوشش کرے گا جس سے گریز کرنا چاہئے، وزیراعظم صاحب ذرا ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں، اُن کے پاس کافی گنجائش موجود ہے، وہ بھارتی یا غیرملکی تبصروں پر نہ جائیں اور یہ بات یاد کریں کہ انہوں نے ملک کی بہت خدمت کی ہے۔
وزیراعظم کی یہ شکایت بجا ہےکہ انہوں نے دُنیا کے دبائو کے باوجود ایٹمی دھماکہ کیا یہ اس کی سزا ہے۔ اب عالمی طاقتیں پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کررہی ہیں، سو ایسی صورت میں وزیر اعظم تہی دامن نہیں ہیں اور ان کا عدالتوں پر اعتماد ایک اچھی علامت ہے۔ یاد رہے کہ یہ بات اس وقت بھی کہی جارہی تھی کہ نواز شریف نے ایٹمی دھماکہ کیا تو ان کا دھماکہ کردیا جائے گا جبکہ آپ نے خود مجھ پر طنز کیا تھا کہ آپ میرا دھماکہ کرانا چاہتے تھے جبکہ ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ پہلے ہی کرچکا تھا۔ سو اب بھی آپ کچھ ایسے فیصلے کر سکتے ہیں جو آپ کو سرخرو کریں، ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ زندگی اگر قوم کی خدمت میں کام آئے تو اس سے اچھا کیا ہے۔ اب بھی یہ ہی گزارش کریں گے کہ دبائو کے ماحول سے نکل کر کسی اچھے ماحول میں سوچیں کہ وزارتیں آنی جانی چیز ہے، یہ کسی کے پاس نہیں رہتی، ملک کے مفاد میں کیا ہے وہ آپ کو کرنا چاہئے اور جب آپ ایسا سوچیں گے تو یکسر منظرنامہ بدل جائے گا۔ وزیراعظم کو اپنا کیس لڑنے کا پورا حق ہے مگر وہ دیکھ لیں پاکستان عدم استحکام کا شکار نہ ہو، عالمی ایجنڈا یہی ہے، آپ پر الزام نہ لگے کہ دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل آپ کے ہاتھوں سے ہوئی۔ پھر میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ وزیراعظم کے پاس بہت سے آپشنز موجود ہیں اور ان کا عدلیہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ صائب ہے اسی روش پر چلتے رہیں۔

تازہ ترین