• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بی وی آئی اٹارنی جنرل کا خط، جے آئی ٹی پر مزید فرد جرم

Todays Print

اسلام آباد ( رپورٹ/ طارق بٹ ) ورجن آئی لینڈز کے اٹارنی جنرل کے چیمبرز کا خط جو جمعرات کو سپریم کورٹ نے جاری کیا اس میں پاناما جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ( جے آئی ٹی ) پر مزید فرد جرم عائد کی گئی ہے کہ اس نے اپنے سوچے سمجھے منصوبے کے خلاف جانے والے حقائق اور مراسلت کو چھپایا۔

16 جون 2017 کو لکھے گئے اس خط سے کئی حیران کن سوالات اٹھتے ہیں۔ بی وی آئی اٹارنی جنرل کیلئے  کرائون کونسل سارا پوٹر۔واشنگٹن نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو مخاطب کیا، یہی نہیں بلکہ بی وی آئی سے دیگر تمام خطوط پوسٹ یا ای میل کئے گئے جبکہ یہ خط جس میں جے آئی ٹی کی ایم ایل اے درخواست پر اسے مقامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تعاون سے صاف انکار کیا گیا ۔ اس کا جے آئی ٹی رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے ۔ 4 جولائی 2017 کو سارا پوٹر۔ واشنگٹن کے ایک اور خط کو اس میں شامل کیا گیا ۔ کیوں ؟ آیا یہ تازہ ترین خط جے آئی ٹی کو 10 جولائی سے قبل مل گیا تھا۔ جب وہ اسائنمنٹ مکمل کرکے تحلیل ہو چکی تھی۔

16 جون 2017 کو مراسلت کو جے آئی ٹی میں شامل نہ کرنے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے وہ یہ کہ اس سے جے آئی ٹی کو کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی کیونکہ ایم ایل اے کی بنیاد پر تعاون سے انکار کر دیا گیا تھا۔ ای میل اور بذریعہ ڈاک ساتھ ساتھ بھیجے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کو 16 جون 2017 کو ہی مراسلت مل گئی تھی۔ خط جے آئی ٹی کے ای میل پتے پر بھی بھیجا گیا۔ اس خط پر غور نہ کرنا جے آئی ٹی کی مجرمانہ غفلت ہو  سکتی ہے  ایسی صورت میں جب یہ مراسلت موصول ہوئی تاہم اگر 4 جولائی 2017 کا خط موصول ہوا تو پھر یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اسے 16 جون 2017  کا خط کیوں نہیں ملا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ نے خط ملتے ہی اسے عام کر دیا چونکہ جے آئی ٹی نے اپنا کام سمیٹ لیا تھا۔

بی وی آئی اور قطری شیخ کے خطوط عدالت کے رجسٹرار کو بھیج دیئے گئے جنہیں منگوا کر کھلی عدالت میں کھولا گیا۔ ظاہر ہے یہ خطوط جے آئی ٹی کی مدت 10 جولائی گزرنے کے بعد ملیں ہوں گے۔ یہ واضح ہے کہ بی وی آئی کا خط ای میل سے ڈائون لوڈ کیا گیا ہوگا، کیونکہ اس پر سارا پوٹر۔ واشنگٹن کے دستخط نہیں ہیں۔

16 جون اور 4 جولائی کے خطوط دونوں کا مضمون: ایم ایل اے ۔ نیسکول لمیٹڈ بی سی 77606 اور نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ بی سی 114856 ہے ۔ 4 جولائی کے خط میں 3 جولائی کی بی وی آئی ایف آئی اے کی مراسلت شامل ہے ۔ نیلسن اور نیسکول کے حوالے سے ایف آئی اے کے اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں موسیک فونسیکا سے 22 جون 2012 کو ایف آئی اے کو جواب ملا جس سے اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ ایف آئی اے اور موسیک ونسیکا میں 2012 کی مراسلت وہی دستاویز ہے جو آئی سی آئی جے نے جاری کی۔

ایف آئی اے نے صرف  اپنے ریکارڈ اور موسیک فونسیکا کے ساتھ مراسلت کی تصدیق کی ۔ 4 جولائی کا خط جے آئی ٹی کی 23 جون 2017  کی مراسلت کا نتیجہ تھا۔ اس سے مزید سوالات اٹھتے ہیں جب جے آئی ٹی نے بی وی آئی اٹارنی جنرل کو یہ خط لکھا، حقیقت میں اس نے 16 جون کا خط پہلے ہی وصول کر لیا تھا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب جے آئی ٹی کو اٹارنی جنرل کے 16 جون کے خط سے منفی جواب ملا تو اس نے ایف آئی اے سے تصدیق کےیلئے ایف آئی اے اور موسیک فونسیکا کے درمیان پرانی مراسلت بھیج دی ، جس سے یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ جے آئی ٹی اس پوری کہانی میں شریف خاندان کو پھنسانے پر مصر ہے جے آئی ٹی رپورٹ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ 16 جون 2017 کا خط اس کی رپورٹ اور جاری کردہ 9 جلدوں میں موجود نہیں ہے۔

تازہ ترین