• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران کے فلیٹ کی ادائیگی ،باقی پیسے کہاں سے آئے ،بڑا سوال ہے

Todays Print

کراچی(جنگ نیوز)عمران خان نے  فلیٹ کی جو ادائیگی کی اس کی تیس فیصد رقم بھی ان کے پاس نہیں بنتی تھی، باقی پیسے کہاں سے آئے اس پر بڑا سوال اٹھتا ہے،  نواز شریف کی باعزت بریت ممکن ہے،ایف زیڈ ای کمپنی اقامہ کی بنیاد پر روپا ایکٹ اور سیکشن 12کے تحت نواز شریف نااہل ہوسکتے ہیں،نواز شریف یا عمران خان جس کیخلاف ٹھوس شواہد ملتے ہیں اسے سزا ملنی چاہئے، اس وقت طاقت کا توازن مکمل طور پرا سٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں نہیں ہے، نئے وزیراعظم کیلئے خواجہ آصف فیورٹ ہیں مگرچوہدری نثار کی خواجہ آصف کے ساتھ نہیں بنتی  چوہدری نثار چاہتے ہیں خواجہ آصف کے عبوری وزیراعظم بننے سے پہلے اپنے جذ با ت کا اظہار کردیں۔

ان خیالات کا اظہار سینئر زصحافی و تجزیہ کار اور اینکرززاہد حسین ، مرتضیٰ سولنگی ، احمد نورانی، منیب فاروق  اور نما ئند ہ جیو نیوز آصف علی بھٹی نےجیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ نمائندہ جیو نیوز آصف علی بھٹی نے بتایا کہ چوہدری نثار کا نواز شریف سے گلہ شکوہ برقرار ہے، چوہدری نثار کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ پارٹی نہیں چھوڑیں گے اور شاید وزارت سے بھی استعفیٰ نہ دیں، چوہدری نثار کی پریس کانفرنس ملتوی ہونے کی وجہ کمر درد بتائی گئی ہے، چوہدری نثار کا یہ کمر درد کچھ سیاسی قسم کا درد لگتا ہے، وزیرداخلہ نے پریس کانفرنس ملتوی کر کے نواز شریف اور پارٹی کومزید وقت دیا ہے، وزیراعظم کی نااہلی کی صورت میں نئے وزیراعظم کیلئے خواجہ آصف فیورٹ ہیں ،چوہدری نثار کی خواجہ آصف کے ساتھ نہیں بنتی ہے، چوہدری نثار چاہتے ہیں خواجہ آصف کے عبوری وزیر اعظم بننے سے پہلے اپنے جذبات کا اظہار کردیں۔

سینئر صحافی احمد نورانی نے کہا کہ شریف خاندان اپنی منی ٹریل ثابت کرنے میں ابھی تک ناکام رہا ہے، یہ منی ٹریل دبئی تک تو ثابت ہوتی ہے لیکن جب یہ منی ٹریل قطر پہنچتی ہے تو اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں جمع کروایا گیا، شریف فیملی اپنی منی ٹریل کے لاپتہ لنکس سے متعلق کہتی ہے کہ تیس پینتیس سال پرانی چیزوں کی دستاویز دستیاب نہیں ہیں، جے آئی ٹی کسی پوائنٹ کو بھی شواہد کے ساتھ غلط ثابت نہیں کرسکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور عمران خان کے خلاف کیسز ایک دوسرے پر اثرانداز نہیں ہونے چاہئیں، اگر نواز شریف نے مس ڈیکلریشن یا مس اسٹیٹمنٹ دی ہے تو انہیں لازماً نااہل کرنا چاہئے، جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد نواز شریف پرشکوک و شبہات دور ہوگئے ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کی ذات کو فائدہ پہنچایاہے۔ احمد نورانی نے بتایا کہ عمران خان نے 1971ء میں اپنا کیریئر شروع کیا، 1983ء میں فلیٹ خریدا، اس دوران انہیں دو مختلف کاؤنٹیوں سے رقم آئی، عمران خان پاکستان کے اندر اشتہارات سے جو پیسے کماتے تھے وہ reflect ہورہے ہیں کیونکہ کرکٹ بورڈ کو معاہدے کی کاپی دینا ہوتی تھی، عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ بیرون ملک کمائے جانے والے پیسوں کو پاکستان میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا، عمران خان کے پاس ریکارڈ نہیں ہے تو کاؤنٹیز سے رابطہ کر کے اس وقت کھلاڑیوں کو ملنے والے پیسوں کا پتا کیا جاسکتا ہے، عمران خان نے اس وقت فلیٹ کی جو ادائیگی کی اس کی تیس فیصد رقم بھی ان کے پاس نہیں بنتی تھی، باقی پیسے کہاں سے آئے اس پر بڑا سوال اٹھتا ہے۔احمد نورانی کا کہنا تھا کہ پاناما کیس میں عدالت کا دائرہ اختیار سب سے اہم سوال ہے ،عدالت میں واضح ہوگیا کہ وزیراعظم کی ذات کے حوالے سے کرپشن یا اختیارات کے غلط استعمال کا کوئی الزام نہیں ہے، منی ٹریل کے ساتھ بھی وزیراعظم کی ذات کا براہ راست تعلق نہیں جڑ رہا ہے، دہائیوں سے کاروبارکرنے والے خاندان کے ذرائع آمدنی مختلف ہوسکتے ہیں صرف وزیراعظم کا پبلک آفس ہولڈر ہوجانا اس طرف اشارہ نہیں کرتا ہے، اگر وزیر اعظم کی نااہلی کا سوچا جارہا ہوتا تو نواز شریف کو لازمی بلایا جاتا۔

احمد نورانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں طاقتور قوتیں جس طرف ہوں فیصلے بدقسمتی سے ہمیشہ اسی طرف جاتے ہیں جہاں سے دباؤ ہو، ایوب خان کے مارشل لاء کیخلاف دوسو کیس آیا لیکن اسے نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا گیا، یحییٰ خان مارشل لاء کے آخر میں عاصمہ جیلانی کیس آیا، جب اس کیس کا فیصلہ آیا اس وقت چونکہ مارشل لاء ختم ہوچکا تھا تو اسے ناجائز قرار دیدیا گیا، دوسو کیس میں کیلسن کی تھیوری پر انحصار کیا گیا تھا اسے عاصمہ جیلانی کیس میں اڑادیا گیا، جب ضیاء الحق کے مارشل لاء کیخلاف نصرت بھٹو کیس آیا تو اسی کیلسن کی تھیوری کو پھر دوبارہ اڑادیا جاتا ہے، اصل میں دیکھا یہ جارہا ہوتا ہے کہ طاقتور کدھر ہے، بینظیر بھٹو اپنی حکومت گرانے کیخلاف عدالتوں میں گئیں لیکن انہیں انصاف نہیں ملا، جب نواز شریف حکومت بحال کرنے کیلئے فیصلہ آیا تو وہ طاقتور قوتوں کے نمائندے سمجھے جاتے تھے، تاریخ بتاتی ہے کہ اس طرح کے کیسوں کے فیصلے حقائق اور شواہدکی بنیادوں پر نہیں ہوتے ہیں۔

احمد نورانی نے کہا کہ موجودہ دنوں میں وزیراعظم کے گھر کے ایک کلومیٹر کے دائرے میں صرف تحریروں کی وجہ سے لوگوں کے گھروں پر حملے ہوتے ہیں، حملہ آوروں کی گاڑی کیمرے میں آتی ہے، حکومت وقت جاننے بوجھنے کے باوجود کچھ نہیں کرسکتی ہے، یہ سب کوپتا ہے کہ طاقت، ہوا اور کالی آندھی کس طرف چل رہی ہے۔سینئر صحافی و تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ شریف خاندان نے منی ٹریل صحیح طرح پیش نہیں کی، پاناما کیس کی وجہ سے نواز شریف کو بہت زیادہ سیاسی نقصان ہوا ہے، نواز شریف کے طاقتور ترین ہونے کا تاثر اب ختم ہوگیا ہے، نواز شریف کی اتھارٹی نہ صرف بطور وزیراعظم کمزور ہوئی ہے بلکہ پارٹی پر بھی اس کا اثر پڑا ہے، نواز شریف یا عمران خان جس کیخلاف ٹھوس شواہد ملتے ہیں اسے سزا ملنی چاہئے، نواز شریف کی طرح عمران خان کو بھی منی ٹریل ثابت کرنا ہوگی، پاناما کیس میں وزیراعظم کی نااہلی کے امکانات کم ہیں زیادہ امکان ٹرائل کورٹ بننے کا ہے،اس وقت طاقت کا توازن مکمل طور پرا سٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں نہیں ہے، 2014ء میں دھرنے کے پیچھے کیا ہورہا تھا سب کو اندازہ تھا، اس وقت سیاسی قوت بھی ابھر کر آئی اور پارلیمنٹ نے اس خطرے پر قابو پالیا۔

سینئر اینکر  و ماہر قانون منیب فاروق نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد بھی نواز شریف کیخلاف ناقابل تردید ثبوت سامنے نہیں آئے ہیں، عدالت کے معزز جج صاحبان بھی کہہ چکے ہیں کہ ابھی تک کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا جو وزیراعظم کو لندن فلیٹس سے جوڑتا ہو، صرف ایف زیڈ ای کمپنی کا اقامہ کیلئے نواز شریف کا چیئرمین بننا اہم بات ہے، اس کی بنیاد پر روپا ایکٹ اور سیکشن 12کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے لیکن یہ کوئی اچھی نظیر نہیں سمجھی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاناما کیس ٹرائل کورٹ کو بھیجا جانا چاہئے، اس کیس میں فریقین ٹھوس شواہد دینے میں ناکام رہے ہیں، فیئر پوزیشن تب ہی ہوگی جب عدالت ٹرائل کورٹ یا احتساب عدالت کے حوالے سے فیصلہ کرے۔ سینئر صحافی مرتضیٰ سولنگی  نے کہا کہ سپریم کورٹ پاناما کیس میں نواز شریف کی باعزت بریت کا فیصلہ بھی کرسکتا ہے، کوئی بھی فریق عدالت میں ناقابل تردید ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے، ممکن ہے نواز شریف اور عمران خان کیخلاف نااہلی کی درخواستوں کو اٹھا کر پھینک دیا جائے، عدالت کے پاس عمران خان اور نواز شریف کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت کوئی ایک قوت فیصلہ کن حیثیت میں نہیں ہے۔

تازہ ترین