• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا ایک اور وزیراعظم مدت مکمل کئے بغیر رخصت ہوچکا ہے۔کسی بھارتی وزیراعظم نے صحیح کہا تھا کہ ’’ہم اتنی دھوتیاں تبدیل نہیں کرتے جتنے پاکستان وزیراعظم تبدیل کرتا ہے‘‘۔سیاست کے طالبعلم اور جمہوریت کے داعی ہونے کے ناتے مجھے شدید افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ 20کروڑ عوام کا منتخب وزیراعظم کتنا کمزور ہے۔ایک ایسا وزیراعظم جسے جب چاہے کوئی آٹے میں سے بال کی طرح نکال کر پھینک دے۔ہمسایہ ملک بھارت کی مثال بار بار اس لئے دینا پڑتی ہے کہ متحدہ ہندوستان میں ہم اکٹھے ہوتے تھے اور تقسیم کے دوران دو ریاستیں بن کر سامنے آئی تھیں۔ ایک کا نام پاکستان اور دوسرے کا بھارت طے ہوا تھا۔ پچھلے 70سالوں کے دوران کبھی بھی کسی بھارتی وزیراعظم کو گھر نہیں بھیجا گیا۔کسی ادارے نے ایگزیکٹو کے معاملے میں مداخلت کا تصور بھی نہیں کیا۔اعلیٰ عدلیہ مکمل آزاد ہےمگر انتظامی معاملات میں چیف ایگزیکٹو کے پیچھے کھڑی نظر آتی ہے۔مجھے یاد ہے کہ گزشتہ سال چیف جسٹس سپریم کورٹ آف انڈیا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ججوں کی کمی کا شکوہ کرتے ہوئے درخواست کررہے تھے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز صاحبان کی تعداد پوری کی جائے۔یہ خبر بھارت سمیت پاکستان کے متعدد اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔صرف بھارت ہی نہیں بلکہ دنیاکی کسی جمہوریت میں چیف ایگزیکٹو کو یوں گھر نہیں بھیجا جاتا۔آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالا دستی کیلئے ضروری ہے کہ اداروں کی اداروں میں مداخلت کا راستہ دائمی طور پر بند ہونا چاہئے۔اگر چیف ایگزیکٹو کا منصب یونہی بیساکھیوں کا محتاج رہا تو پھر نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔
وزارت عظمیٰ کو خیر باد کہنے کے بعد محمد نوازشریف نے سیاسی چالیں چلنے کا آغاز کردیا ہے۔وزارت عظمیٰ کے منصب کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا نام فائنل کیا گیا ہے مگر انکے ایم این اے بننے تک نگران وزیراعظم لایا جائے گا۔عدالتی نااہلی کے بعد نوازشریف جی ٹی رو ڈ یا پھر صرف لاہورمیں بڑی سیاسی سرگرمی پر غور کررہے ہیں۔پارٹی رہنماؤں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد لاہور آمد کے موقع پر نوازشریف کو بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔میری اطلاعات کے مطابق مخالفین اور ادارے اب نوازشریف کا مختلف چہرہ دیکھیں گے۔کئی رازوں کا امین جارحانہ نوازشریف بہت خطرنا ک ثابت ہوسکتا ہے۔بہرحال نوازشریف کی پارلیمانی سیاست میں غیر موجودگی کا خلا پر کرنے کیلئے پارٹی رہنما ایک مرتبہ پھر شریف خاندان کی طرف ہی دیکھ رہے تھے ۔نوازشریف کے بعد اگر کوئی شخص پارٹی کو اس بھنور سے نکا ل سکتا ہے تو وہ صرف شہباز شریف کی ذات ہے۔اس خاکسار نے کئی ماہ پہلے لکھا تھا کہ نوازشریف کا نعم البدل بھی نوازشریف ہیں ۔کیونکہ لیڈر کا نعم البدل اس کا نظریہ ہوتا ہے۔لیکن اگر کوئی شخص نواز شریف کے بعد مسلم لیگ ن کا اوپننگ کھلاڑی ہوسکتا ہے تو وہ شہبا ز شریف کی ذات ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پارٹی سمیت عوام کی اکثریت اب کارکردگی پر یقین رکھتی ہے۔نوازشریف خود بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پوری جماعت میں شہباز شریف کی کارکردگی کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ۔دوسری وجہ ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کا ذاتی بانڈ بہت مضبوط ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف ہوں تب بھی وزارت عظمیٰ کے تمام حساس فیصلے نواز شریف کے پاس ہونگے اور اس دنیا میں شہباز شریف سے زیادہ نواز شریف کا قابل اعتماد کون ہو سکتا ہے۔ بہت سے لوگ خاندانی اختلافات کو ہوا دے کر دونوں بھائیوں کے درمیان آکر اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں مگر مجھے ذاتی طور پر معلوم ہے کہ شہباز شریف کا اپنے بڑے بھائی کے لئے احترام کا یہ معیار ہے کہ وہ انہیں باپ کا درجہ دیتے ہیں اور یہی حال نواز شریف کا ہے۔ نواز شریف اولاد ہی کی طرح شہباز شریف سے شفقت کرتے ہیں۔ اس لئے ایسی آزمائشی صورتحال میں نواز شریف کا اپنے بعد شہباز شریف کو باگ ڈور سونپنا فطری ہے۔باقی کچھ معاملات میں وقت بہتر استاد ہوتا ہے۔ دونوں بھائیوں میں خون کی محبت الگ بات ہے لیکن اعتماد کی اس سطح تک پہنچنے میں دونوں نے بہت کچھ قربان کیا ہے۔گزشتہ ہفتے سابق آمر پرویز مشرف کا انٹرویونشر ہورہا تھا۔انٹرویو کے دوران ان سے سوال ہوا کہ آپ نے چوہدری نثار ،عمران خان او ر شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کی آفر کی ۔جس پر مشرف نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے چوہدری نثار کی موجودگی میں صرف شہبازشریف کو وزیراعظم بننے کی پیش کش کی تھی۔حالانکہ کچھ معاملات کا مجھے بھی علم ہے۔99میں سول عسکری قیادت کے درمیان کشیدگی کے دوران جب مشرف کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کا اضافی چارج مل گیا تو ایک دن مشرف نے علیحدہ ملاقات میں شہباز شریف کو کہا کہ میرے کور کمانڈرز کی خواہش ہے کہ آپ وزیراعظم بن جائیں۔ جس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ ’’آپ نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا،یہ ممکن ہی نہیں ہے۔شہباز شریف نے مزید کہا کہ اگر اضافی چار ج ملنے کے بعد بھی کوئی غلط فہمی ہے تو میں وزیراعظم نواز شریف سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ کھانے پر تشریف لے آئیں اور آپ بھی کھانے پر آجائیے گا۔کھانے کی میز پر تمام غلط فہمیاں دو ر کرلی جائیں گی۔مشرف نے سری لنکا سے واپسی پر کھانے کی حامی بھر لی مگر پھر جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے۔وزارت عظمیٰ کے منصب کو ٹھوکر مارنا آسان نہیں ہوتا۔یہ بھائیوں کی بے پناہ محبت اور اندھا اعتماد ہے کہ کوئی دونوں کے درمیان رکاوٹ نہیں بن سکا۔اسی طرح نوازشریف بھی شہباز شریف پر بہت مہربان ہیں۔ایسی بہت سی مثالیں ہیں جس میں نوازشریف اپنے بھائی شہباز شریف کی بات کو اٹل قرار دیتے ہیں۔اس لئے یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ نوازشریف اور شہباز شریف کا ذاتی رشتہ بہت مضبوط ہے ،جو تمام عہدوں سے بالاتر ہے۔
شہباز شریف کے ہوتے ہوئے بھی نوازشریف حقیقی وزیراعظم ہونگے اورنوازشریف کا پردے کے پیچھے بیٹھ کر معاملا ت چلانا بہت سے لوگوں کے لئے پیغام ہے۔شریف خاندان اتنی آسانی سے اپنی سیاست دفن نہیں کرنے دیگا۔آج ایک نہتا نوازشریف بہت سے لوگوں کے لئے خطرے کی علامت ہوگا۔میری دعا ہے کہ نوازشریف کے سینے میں جو راز دفن ہیں وہ باہر نہ آئیں ۔ اگر نوازشریف نے ان رازوں کا دس فیصد بھی بیان کرنا شروع کیا تو آئین کا آرٹیکل 62اور63بھی کم پڑ جائے گا۔
اگر نوازشریف بولنا شروع کیا تو کئی لوگوں پر آرٹیکل 6کی تلوار لٹکتی نظر آئے گی۔اس لئے میری اداروں سے استدعا ہے کہ نوازشریف کو دیوار سے لگانے کا خواب دیکھنا چھو ڑ دیں۔صرف نوازشریف نہیں بلکہ ہر عوامی رہنما کی قسمت کا فیصلہ بند کمروں کے بجائے عوامی عدالت میں ہونے دیں۔
حکم یہ نشر کرا دوں عدم کہ آئندہ
عوام تن کر چلیں جھک کر شہریار چلے

تازہ ترین