• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکر الحمد للہ! پاکستان میں بقائے جمہوریت کے لئے ناگزیر بن جانے والا احتسابی عمل شروع۔ پہلا ناقابل یقین نتیجہ نکل آیا۔ تقریباً پورے حکمران خاندان کو بذریعہ عدلیہ آئین و قانون فراہمی ٔ انصاف کے بعد ملک میں آئینی جمہوری اور سیاسی عمل بدستور جاری و ساری ہے جو ملکی سیاسی استحکام میں بڑی پیش رفت ہے۔
پاکستان میں جلد جلد سول حکومتوں کی تبدیلی اور فوجی آمریتوں کے طویل غیرآئینی اقتدار کے تاریخی پس منظر میں پاناما کیس کے فیصلے کایہ پہلو کتنا دلچسپ اور اہم ہے کہ گئی تو اس مرتبہ بھی منتخب حکومت کرپشن کی بے نقابی پر ہے، لیکن فوج کے ہاتھوں نہیں، نہ فوج اقتدار میں آئی۔ ماضی میں پاکستانی سول حکومتوں کے اقتدار کھونے کی کہانیاں کرپشن سے جڑی ہوئی ہیں۔ پاناما کیس تو دنیا بھر کے کرپٹ حکمرانوں کی کرپشن کی کوکھ سے نکلا ہے اور اسے تحقیقاتی صحافیوں کی عالمی تنظیم نے بلاامتیاز بے نقاب کیا ہے۔ ویسے بھی 2008سے تادم بدترین جمہوریت کے مسلسل تسلط اور میڈیا میں کرپشن کی چھپی غضبناک کہانیوں کا پردہ چاک ہونے کے باوجود فوج کےاقتدار میں آنےکی گنجائش تو پیدا ہی نہ ہوئی۔ وجہ مسلسل تلخ تجربات سے عسکری حلقوں کی روایتی سوچ میں تبدیلی پھر ملکی حساس صورتحال اور سابق آمر صدر پرویز مشرف پر پورا نہیں تو ادھورا احتسابی ہاتھ پڑنے نے فوج کی اجتماعی قیادت کو بالآخر تسلیم کرا دیا کہ اقتدار بمطابق آئین اور عملاً بھی فوج کا کام ہے ہی نہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ پرویز مشرف پر ادھورا ہاتھ کیوں پڑا؟ جواب بہت واضح کہ جو منتخب حکومت ملک میںمرضی سے آئین کا ادھورا اور قانون کا یکساں نفاذنہیں کرے گی وہ کسی حاضر و سابق فوجی حکمران یا افسر کا پورا احتساب کر ہی نہیں سکتی۔ یہ بھی حکمران اشرافیہ کی طرح کوئی عام شہری تو نہیں۔ بے حساب اور مسلسل کرپشن کا ریکارڈ لئے کوئی بڑے سے بڑی مینڈیٹ والی سول حکومت، آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں نفاذ کرکے خود بھی مکمل چل ہی نہیں سکتی۔
اب آئین و قانون کی روشنی میں آنےوالے امید افزا فیصلے کے بعد معزول وزراء صاحبان اور معزول نواز لیگ کےدوسرے بینی فشریز ’’عالمی سازش‘‘ کا واویلا کر رہے ہیں۔ ان پر واضح ہو کہ 2008سے صاحبان رائے کے تنقیدی تجزیوں، تبصروں اور فقیر منش پاکستانیوں کے ’’قدرتی راہوں سے انہونیوں کےہونے‘‘ کے انتہائی ابلاغ کے باوجود ہر دو سول حکومتوں نے اپنی سابقہ سیاسی و حکومتی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کی بجائے، ان کا مجموعی رسپانس یہ ہی آتا رہاکہ ’’جمہوریت چل رہی ہے، ترقی ہو رہی ہے، سازشی عناصر سازشیں کرتے رہیں، وہ یہ نہیں روک سکتے‘‘ انہو ںنے فوج کے عدم مداخلت کے رویے کو خوشی خوشی بھانپتے ہوئے صحت و تعلیم کی سہولتوں کے اقدامات، ٹیکس اصلاحات، تھانہ کچہری کلچر کےخاتمے، قانون سازی، آئینی تقاضے کے مطابق عوام دوست لوکل باڈیز کا نظام رائج کرنے، پارلیمنٹ کو سرگرم کرنے اور سب سے بڑھ کر ملک میں ’’آئین کی مکمل اور قانون کے یکساں نفاذ‘‘ (بتدریج ہی سہی) سے ممکنہ گریز کی روش اختیار کئے رکھی۔ گویا ’’ایک بار پھر اقتدار کو‘‘ ملکی حالات اور اپنی تاریخ و سیاست میں بہتری لانے کی بجائے اسٹیٹس کو کی روایتی اپروچ سے ہی خود کو مرزا یار اور ملک کو سُنجا محلہ ہی جانا۔ یوں یہ کرپشن میں مبتلا بدستور دھما چوکڑی ہی مچاتے رہے۔
اب شروع ہونے والا حقیقی احتسابی عمل جاری عشرے کی ہر دو حکومتوں کی کرپشن اور اختیارات کے غیرآئینی استعمال کا پردہ چاک ثابت کرتا، لگے الزامات کی تصدیق کرتا اور انصاف فراہم کرتا جائے گا۔ امر واقعہ ہے کہ مسلط اسٹیٹس کو تشکیل دینے والے اور ان کے ہمنوا بینی فشریز آزاد عدلیہ کے حقیقی آئینی کردار کی تابناکی، میڈیا کی واچ ڈاگ حیثیت اور ان پر عوام الناس کے اعتماد و اطمینان کی اپنے خلاف ا ہمیت کو سمجھ ہی نہ سکے۔ 22,20سال میں فقط اتنا ارتقا ہوا کہ عدلیہ پر ماضی کی طرح براہ راست حملہ کرنے کی بجائے، عدلیہ اور مقام تفتیش کے باہر سیاسی تھیٹر لگا کر عدلیہ کے خلاف بالواسطہ جے آئی ٹی کے خلاف براہ راست دھمکی آمیز اور تشویشناک تقریروں کو لازمہ بنالیا، حتیٰ کہ ڈیزاسٹر میڈیا سیل نے وزیراعظم سے بھی تھیٹر والی جگہ پر ہی خطاب کرا دیا اور میاں صاحب نے بھی کر دیا جو کہ اس وقت وزیراعظم تھے۔ یہ تجزیے ہونے تو ابھی باقی ہیں کہ کس طرح عدالتی و تفتیشی کارروائی کےمتوازی ن لیگی تباہ کن سیاسی ابلاغ نے معزول حکمران خاندان کو آج کے برے دن دکھانے میں کتنا حصہ ڈالا۔
اناڑی میڈیا سیل تو ایک طرف وزارتیں کھونے والے بھی سبحان اللہ۔ فیصلے کے بعد شام کو ن لیگی معزول وزراء اور ان کے ساتھ ن لیگی ماہرین قانون نے جو پریس کانفرنس کی، اس میں بھی وہ عوام کو گمراہ کرنے کی دیدہ دلیری کے مرتکب ہوئے۔ بولے فقط دبئی کے اقامے میں درج تنخواہ کو چھپانے پر وزیراعظم نااہل ہوئے اور لندن فلیٹس اور دوسری کرپشن کا جو شور مچا تھا اس پر تو کچھ نہ ہوا۔ کیوں نہ ہوا۔، مقدمہ دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک الیکشن کمیشن کے ڈیکلئیریشن میں حقائق چھپانے اور جھوٹ کامرتکب ہونے پر، دوسرا نیب ایکٹ کی زد میں آنے والے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور بیرون ملک مشکوک ترین کمپنیوں کے قیام پھر اربوں کروڑوں کی نقد رقم کے تحائف اِدھر سے اُدھر ہونے کے سختی سے قابل تفتیش جرائم، ان میں سے جتنوں میں جان تھی وہ نیب کے سپردکردیئے گئے کہ وہ مقدمہ تیار کرکے چھ ہفتوں میں احتساب کورٹ میںپیش کرے جو چھ ماہ میں فیصلہ دے۔
متفقہ عدالتی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کے ڈیکلئیریشن میں معزول وزیراعظم نے دبئی کمپنی کی ملازمت اور طے شدہ تنخواہ (خواہ نہ وصول کی) کو چھپانے پر انہیں آئین، آرٹیکل 62 کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا، جس کا مطلب ہے کہ وہ صادق نہیں رہے۔ امین والا معاملہ نیب مقدمات سے منسلک ہے جس کے الزامات ابھی ثابت یا مسترد ہونے ہیں۔
رہا آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے خلاف واویلا۔ یاد رہے یہ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد بھی آئین کا حصہ ہیں اور یہ اس قدر کارآمد ثابت ہوئے کہ ان ہی کے اطلاق سے پاکستان میں انسداد ِ کرپشن کی انہونی کے مقابل طاقت ور ترین حاکم کے احتساب کی راہ ہموار ہوئی۔ احتساب اسلامی جمہوریہ ہی نہیں دنیامیں ہر حقیقی جمہوریہ کا لازمہ ہے۔ معمولی سے جھوٹ یا امانت میں خیانت پر بڑے بڑے طاقتور اور مہذب ملکوں کے حکمرانوں کا احتساب ہوتا ہے، ان کی حکومتیں ہی ختم نہیں ہوتیں وہ جیل تک جاتے ہیں۔
امر واقعہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63/62کے پہلے اطلاق نے ہی پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ بنانے کی راہ پر ڈال دیا۔ پاناما کیس کا فیصلہ حقیقی طلوع اسلامی جمہوریہ ہے۔ آئین کے ان ہر دو مقدم آرٹیکلز کو پارلیمنٹ نےآئین کا حلیہ درست کرنے کی تین سالہ کوششوں میں برقرار رکھا۔ ان کے مفہوم اور روح کے بغیر پاکستان اسلامی جمہوریہ ہو ہی نہیں سکتا۔ آخر ہم سیرت النبیﷺ کو اپنی زندگی کے لئے مشعل راہ سمجھتے ہیں اور اسے زندگی میں ممکنہ حد تک اختیار کرنے کے لئے بے شمار لٹریچر بنادیں۔ اس کا مسلسل ابلاغ جاری ہے تو پھر صادق اور امین کا عظیم اور روشن ترین حوالہ حاکموں کامعیار ِ اخلاق یاد دلانے کے لئے آئین میں کیوں نہ ہو؟ اس کو بحث بنا کر نیا انتشار نہ پیدا کیاجائے۔

تازہ ترین