• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے برملا آمریت کو جمہوریت سے بہتر قرار دے کر ایک ایسا موقف اختیار کیا ہے جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مصور پاکستان علامہ اقبال سے لے کر تحریک آزادی کی ساری قیادت اور پوری مہذب ، ترقی یافتہ اور باشعور دنیا کی فکر سے کھلے اختلاف کے مترادف ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کو گزشتہ روز دبئی میں دیے گئے اپنے انٹرویو میں ملک کے سابق ڈکٹیٹر نے دعویٰ کیا کہ ڈکٹیٹروں نے ملک کو ٹھیک کیا جبکہ سول حکمرانوں نے ملک کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فوج ملک کو پٹری پر لاتی اور سول حکمراں اسے پٹری سے اتار دیتے ہیں۔جنرل مشرف نے اپنے انٹرویو میں یہ دلچسپ دعویٰ بھی کیا کہ ایشیا کے تمام ملکوں کو دیکھ لیں جہاں بھی ترقی ہوئی صرف آمریت کی وجہ سے ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کو ترقی، خوشحالی ، روزگار اور تحفظ چاہیے خواہ ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت، کمیونزم ہو یا سوشلزم یا بادشاہت۔انہوں نے پاکستان کے فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں ملک کے آئین کی بار بار منسوخی اور معطلی کی وکالت بھی یہ کہہ کر کی کہ ملک کو بچانے کے لیے آئین کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ملک کے سابق ڈکٹیٹر کی چھیڑی ہوئی اس بحث پر اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ آمریت کو جمہوریت سے بہتر قرار دے کر ملک میں ایک نئی فضا بنائی جارہی ہے۔سیاست دانوں پرکرپشن کے الزامات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ مشرف دور میں کرپشن سے کمائی گئی دولت کی واپسی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں سب سے زیادہ ریکوری ان کے طبقے سے وابستہ شخصیات سے ہوئی جبکہ بیورو کریسی دوسرے نمبر پر رہی اور سیاست داں ان دونوں سے پیچھے رہے۔مولانا فضل الرحمن نے دعویٰ کیا کہ اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر کوئی کرپشن نہیں کرسکتا۔پاناما کیس اور اس کے باعث ملک میں پیدا ہونے والی افراتفری کو انہوں نے بین الاقوامی سازش کا نتیجہ قرار دیا جس کامقصد پاکستان میں افغانستان اور عراق جیسے حالات پیدا کرنا ہے۔ قومی سلامتی کے لیے ملک میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے والی سیاست کے بجائے انہوں نے صاف ستھری سیاست ، امن و یگانگت کے فروغ اور ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی کے بجائے تعاون کی ضرورت کا اظہار کیا۔ سینئر قانون داں اور سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے بھی گزشتہ روز ملک کی موجودہ صورت حال پر اہم اظہار خیال کیا۔ وفاقی دارالحکومت میں نیشنل پریس کلب کے پروگرام میٹ دی پریس میں انہوں نے ملک کے اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے نااہل قرار دیے جانے کے عدالتی فیصلے کے حوالے سے اس رائے کا اظہار کیا کہ آئین کی جس شق کی بنیاد پر یہ فیصلہ دیا گیا ہے وہ اس معاملے پر لاگو ہی نہیں ہوتی۔ ملک کے ریاستی ادارے آج جس باہمی کشمکش کا شکار ہیں، ان بیانات سے ان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنانے پر پوری طرح متفق ہے۔ایوب خان کے دس سالہ دور میں ملک میں صنعتی ترقی یقیناً ہوئی لیکن عوام کے اندر یہ احساس بھی ابھرا کہ ملک کے معاملات اور پالیسی سازی میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور یہی احساس مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک کی بنیاد بنا جسے جنرل یحییٰ کی ہوس اقتدار نے حقیقت بنادیا۔ایوبی آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ملک کے طول و عرض میں جو عظیم الشان تحریک چلی وہ جمہوریت سے عوام کی وابستگی کا ایک تاریخ ساز مظاہرہ تھا۔ جنرل یحییٰ عوام کی نفرت کا جس طرح نشانہ بنے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے بھٹو جیسے عوامی لیڈر کو موت کی سزا دے کر اور ملک کو برسوں جمہوریت سے محروم رکھ کر جن مسائل کو جنم دیا ان کے نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ جنرل مشرف نے نائن الیون کے بعد امریکی وزیر خارجہ کی ایک ٹیلی فون کال پر جس طرح افغانستان پر فوج کشی میں تعاون کے حوالے سے امریکہ کے ساتوں مطالبات مان کر پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے جانے کی راہ کھول دی اس کی تباہ کاریاں سب کے سامنے ہیں ۔ کسی جمہوری حکومت میں ایسا ہونا یقیناً محال ہوتا اس کا ایک واضح ثبوت وہ ایٹمی دھماکے ہیں جو ایک جمہوری حکمراں نے امریکی صدر کی پانچ ٹیلی فون کالوں پر دی گئی دھمکیوں اور ترغیبات کے باوجود کیے۔اس سے پہلے اسی جمہوری دور میں سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے لیے امریکہ کے شدید دباؤ کا پوری کامیابی سے مقابلہ کیا گیا۔جنرل مشرف ہی کی پالیسیوں کے نتیجے میں بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو نئی زندگی ملی جبکہ اپنے تازہ انٹرویو میں بھی انہوں نے اس مسئلے کا حل یہی بتایا ہے کہ بات چیت اور مفاہمت کے بجائے ایسی تحریکوں سے بندوق کی طاقت سے نمٹا جانا چاہیے۔پاکستان کے اتحاد کا ضامن آئین جمہوری دور میں بنا جبکہ ڈکٹیٹر اسے توڑ کر ملک میں علیحدگی کی تحریکوں کی راہ ہموار کرتے رہے۔ جمہوری قائدین کی حکومتیں برطرف کیے جانے کے باوجود عوام میں ان کے لیے محبت کے جو جذبات موجود رہتے ہیں اور جن کا برملا اظہار ہوتا ہے، کسی ڈکٹیٹر کے لیے ایسے جذبات کا نہ پایا جانا بھی جنرل مشرف کے دعووں کی کھلی تردید ہے۔فوج سے عوام بے پناہ محبت کرتے ہیں وہ یہ نہیں کہ فوجی قائدین اچھے حکمراں ہوتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ فوج عوام کی جان ومال اور ملک کی سرحدوں کی محافظ ہوتی ہے ۔ جنرل مشرف کا یہ دعویٰ کہ ایشیا میں جہاں بھی ترقی ہوئی آمریت کی بدولت ہوئی، کھلے حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا ، بھارت اور متعدد دوسرے ملکوں کی ترقی جمہوری نظام حکومت کے تسلسل ہی کا نتیجہ ہے ، بیشتر مسلم ملکوں کی عدم ترقی کا سبب آمرانہ حکومتیں ہیں۔ ان واضح حقائق کی بنیاد پر کسی خوف تردید کے بغیر کہا جاسکتا ہے کہ آمریت کسی بھی طور جمہوریت سے بہتر نہیں اور انسانی برادری کے طویل تجربات کی روشنی میں طے پانے والا یہ اصول بالکل درست ہے کہ ’’بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔‘‘

تازہ ترین