• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی معروف شخصیات بھی گلے کے کینسر میں مبتلارہیں

Todays Print

لاہور(صابرشاہ) امید ہے کہ گلے کے کینسرکاشکار سابق وزیراعظم  نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نوازبھی اسی طرح اس جان لیوا بیماری کامقابلہ کریں گی جس طرح ان کے دیور شہباز شریف گزشتہ کئی سال سے ریڑھ کی ہڈی کے کینسر کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ جولائی 2015 میں  عید لندن میں منانے پر وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت شدید بارشوں کے باعث لاہور کی انتظامیہ مفلوج ہوچکی تھی اور لاہورکی گلیاں اور سڑکیں پانی سے بھرچکی تھیں۔

تنقید کے جواب میں شہبازشریف نے 23جولائی 2015 کوایک فیس بک پوسٹ کی کہ وہ گزشتہ کئی سال سے ریڑھ کی ہڈی کے کینسرکاشکارہیں اورعلاج کیلئے انھیں سال میں دوبار لندن آنا پڑتاہے۔شہباز شریف کاکہناتھاکہ وہ اپنی بیماری کے بارے میں لوگوں کو بتانا نہیں چاہتے تھےلیکن لوگوں کو حقیقت جاننے کا حق ہے ۔ شہباز شریف نے کہاکہ پرویز مشرف کےد ور میں جب وہ جبری جلا وطنی کاٹ رہے تھےتو ان کی ریڑھ کی ہڈی میں کینسرکی تشخیص ہوئی اور اسی وقت سے  انھیں لندن میں علاج شروع کرانا پڑا۔ امید ہے کہ کلثوم نواز بھی کینسر کو شکست دینے میں اسی طرح کامیاب ہوں گی جس طرح سابق امریکی صدرجمی کارٹربڑھاپے میں کامیاب ہوئے ۔ تحقیق سے پتہ لگتاہے کہ جنوری 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنےوالےجمی کارٹرضعیف ترین سابق کمانڈر انچیف تھےجنھوں نے کسی صدارتی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔دوسال سے بھی کم عرصے میں کینسر جیسی بیماری سے صحتیاب ہونا ایک حیران کن حقیقت تھی۔

ٹائم میگزین کے20جنوری 2017کےشمارےمیں کہاگیاکہ ’’ 92سالہ جمی کارٹرنے اعلان کیاکہ انھیں  کینسرکی تشخیص ہوئی ہے ۔ بعد میں انھوں نے کہاکہ ان کے خیال میں وہ صرف چند ہفتے ہی زندہ رہ سکیں گے۔ جب انھوں نے علاج شروع کرایاتوکینسران کے جگراوردماغ تک پھیل چکاتھا۔ لیکن دسمبرمیں کارٹر نے کہاکہ اب وہ کینسرسے آزاد ہوچکے ہیں۔ مزید صحتیابی کے بعدمارچ 2016 میں کارٹرنےکہاکہ ان کے ڈاکٹرزکے مطابق اب انھیں کینسرکے علاج کی ضرورت نہیں ہے۔ اُن کے علاج میں شعائیں اور دفاعی قوت بڑھانےوالی تھراپی جسے پمبرولائزمب کہاجاتاہےاستعمال کی گئی۔

امریکی میڈیا ہائوس کاکہناتھاکہ قوتِ مدافعت بڑھانے والی تھراپی ایک نیا طریقہِ علاج ہےاس کے ذریعےجسم کے مدافعتی نظام کو ہی بیماری کے خلاف استعمال کیاجاتاہے،بعض اوقات جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کیاجاتاہے اوربعض اوقات کینسرزدہ خلیوں پرحملہ کیا جا تا ہے۔جب یہ کام کرتاہے توجسم کی کینسر کے خلاف لڑنے کی قابلیت بہتر ہوجاتی ہے ۔ اس سے پہلے جمی کارٹر بتا چکےتھے کہ کس طرح کینسرنےان کے خاندان کو متاثرکیا۔ ان کے والد چھوٹی عمر میں لبلبےکےکینسر کے باعث فوت ہوئےاور اس بیماری نے ان کے خاندان کے بہت سے افرادکی جان لی ۔ گلے کے کینسرمیں مبتلا ہونے والی چندمعروف شخصیات:سابق امریکی صدرالائیسز گرانٹ (1885-1822)کو بھی  گلے کے کینسرکی تشخیص ہوئی ۔

گرانٹ ساری عمر سگار پینے کے حوالے سے بدنام رہے۔وہ ناصرف سگار پیتے تھے بلکہ اسے چبا بھی لیتے تھے۔ انھوں نے خود تسلیم کیاکہ وہ ایک دن میں درجنوں سگارپیتے ہیں ۔  تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جب عوام کو ان کی سگار سے محبت کے بارے میں پتہ لگاتو 20ہزار سگار انھیں تحفے میں دیئے گئے۔ بعض اوقات گرانٹ بہت زیادہ شراب بھی پیا کرتے تھے۔ منہ میں درد اور سوجن کے باعث جب انھیں علاج کی ضرورت پڑی توکینسرلاعلاج تھا۔لیکن گلے کے درد کوکم کرنےکیلئےکوکین استعمال کی گئی ۔

نیپال کے سابق وزیراعظم کنور ایندرجیت  سنگھ (1982-1906)  بھی گلے کے کینسر کے باعث 76سال کی عمر میں وفات پاگئے ،  1950 کی دہائی میں زمین کی تقسیم کے حوالےسے سکیم  شروع کرنے کےباعث ’’ہمالیہ کا رابن ہُڈ‘‘ بھی کہاجاتاہے ۔ اینڈریو بونار لاء(1923-1858) بھی گلے کے کینسرکے باعث فوت ہوئے۔

تازہ ترین