• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو یاد ہوگا جب پورا میڈیا کہہ رہا تھا کہ امریکی الیکشن ہیلری کلنٹن جیت جائیں گی تو میں اکیلا یہ باتیں لکھ رہا تھا کہ ہیلری نہیں ٹرمپ جیتے گا۔ آج میں اسی ٹرمپ کے بارے میں گوربا چوف کا لفظ استعمال کررہا ہوں۔ میں اپنے نوجوان پڑھنے والوں کو بتانا چاہتاہوں کہ گوربا چوف کون تھا، اس نے کیا کیا؟
خواتین و حضرات!گوربا چوف سوویت یونین (روس) کا سربراہ تھا، اس کی غلط پالیسیوں نے سوویت یونین کو تباہ کیا۔ اس کی غلط پالیسیوں کے باعث روس ٹوٹ گیا، اس کے کئی حصے بن گئے۔ آج کے روس میں لوگ میخائل گوربا چوف کو اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرتے مگر آج کے روس میں لوگ اس لئے خوش ہیں کہ ان کے سربراہ پیوٹن نے امریکہ میں گوربا چوف پیدا کردیا ہے۔ باقی بات رہی انڈیا کی تو وہ اس وقت گوربا چوف کے ساتھ تھا جب روس ٹوٹ رہا تھا، جب روس ٹوٹ گیا تو انڈیا بدل گیا۔ آج بھارت ٹرمپ کے ساتھ ہے،کل وہ ٹرمپ کے دیس کے ساتھ نہیں ہوگا۔ ویسے بھی ٹرمپ نے بھارت کو شاباش دے کر ا سے مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ نئی امریکی افغان پالیسی سامنے آنے کے بعد کیا چین، روس، ایران اور پاکستان،بھارت سے پیار محبت کی باتیں کریں گے؟ جب امریکہ، افغانستان کی تعمیر میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں لگارہا تو کیا بھارت وہاںاربوں ڈالرز لگائے گا، ہندو بنیے کی ذہنیت تو یہودیوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب دنیا میں پھیلے دہشت گردبھارت کے ساتھ محبت کا اظہار کریں گے؟ بھارتی پالیسی سازوں کو مزید مشکلات کا سامنا اس لئے ہے کہ بھارت میں اس وقت کشمیر سمیت آزادی کی کئی تحریکیں چل رہی ہیں، اگر بھارتی پالیسی ساز مسلمانوں کے خلاف کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں کئی مرتبہ سوچنا پڑے گا کہ انڈیا کے اندر مسلمان بڑی تعداد میں موجود ہیں پھر انڈیا کی ہمسائیگی میں پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت میں بڑے مسلمان ملک موجود ہیں، بھارتی پالیسی سازوں کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے علاوہ بھی پچاس سے زیادہ مسلمان ملک ہیں جبکہ پوری دنیا میں ہندوئوں کا ایک ہی ملک ہے، اگر وہ بھی تباہی کے کنارے پہنچ گیا یا تباہ ہوگیا تو پھر تو ہندوئوں کا نام و نشان نہیں رہےگا۔
میں پاکستان کی سول و عسکری قیادت، پاکستانی قوم اور پاکستان کے بارے میں بعد میں بات کرتا ہوں پہلے ٹرمپ اور امریکہ کی باتیں کرلیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اپنے ایک مشیر اسٹیوبینن کو فارغ کیا ہے، اسٹیوبینن ووٹ کے مرحلے پر ٹرمپ کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوگا کیونکہ ابھی تک ٹرمپ، امریکی کانگریس اور سینیٹ میں صرف چھ زائد ووٹوں سے حکومت کررہا ہے، ٹرمپ امریکہ میں نسل پرستی کو ہوا دے رہا ہے، وہ سفید فاموں کی بالا دستی کی تحریک کی حمایت کررہا ہے، امریکہ میں لوگ اس تحریک کوWhite Superamist Movementکہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے امریکہ کی تمام ریاستوں کے بڑے شہروں میں ہزاروں افراد نے نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کئے، یہ مظاہرے ٹرمپ کے خلاف تھے، ٹرمپ نے امریکی معاشرے کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہے جس کا بہت زیادہ اثر امریکی معیشت پر پڑرہا ہے۔ ایک کمزور معیشت شاید یہ بوجھ برداشت نہ کرسکے۔ آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ امریکہ مقروض ہے اس نے چین کا سترہ ٹریلین ڈالرز کا قرضہ دینا ہے۔ ٹرمپ آدھا امریکہ بیچ دے تب بھی یہ قرضہ نہیں اتارا جاسکتا۔ سو ٹرمپ جنگوں کا سہارا لے سکتا ہے، اس نے قریباً دو ماہ پہلے دو عرب ملکوں کو کھربوں ڈالرز کا اسلحہ بیچ کر امریکی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی مگر ٹرمپ کی غلط چالیں امریکہ کو تباہی کی طرف لے جارہی ہیں۔امریکہ میں 62 فیصد سفید فام ہیں،35فیصد سیاہ فام اور تین فیصد باقی ہیں۔ ٹرمپ نے امریکیوں کو آپس میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔
آپ کو شمالی کوریا کے بارے میں بتاتا چلوں، شمالی کوریا کا موقف ہے کہ’’ہم کسی وقت بھی امریکہ پر ایٹمی حملہ کرکے سرپرائز دے سکتے ہیں، کیلیفورنیا سے شکاگو تک انٹرکانٹیننٹل بلاسٹک میزائل برسائے جاسکتے ہیں‘‘۔ ایسی باتیں وہ ملک کررہا ہے جس کی کل آبادی25ملین ہے، شمالی کوریا پورے خطے میں مضبوط آرمی کا حامل ملک ہے، اس کے پاس19لاکھ کی تو فوج ہے جو متحرک ہے اگر اس کی ریزور آرمی کو شامل کیا جائے تو70لاکھ بن جاتی ہے۔ 3500جنگی ٹینک، 72سب میرین، 302فائٹنگ ہیلی کاپٹر کے علاوہ563جنگی جہاز ہیں۔ ایسی طاقتور فوج کے حامل ملک کو امریکہ دھمکیاں تو دے سکتا ہے اس کا کر کچھ نہیں سکتا۔ شمالی کوریا کے پاس مذکورہ بالا جنگی سازو سامان کے علاوہ بہترین حملوں کے حامل572جہاز ہیں کم بیٹ ٹینک 5025ہیں جبکہ راکٹ پراجیکٹر 2400ہیں۔ امریکہ شمالی کوریا کو دبانے میں ناکام رہا ہے۔
اس وقت امریکی میڈیا، خاص طور پر سی این این اور دیگر چینلز ٹرمپ کی دماغی نفسیاتی بیماریوںکا تذکرہ کررہے ہیں کیونکہ ٹرمپ کی دماغی بیماری کے حوالے سے کچھ چیزیں لیک ہوچکی ہیں۔
نئی امریکی پالیسی کے بعد پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو ٹوک موقف اپنایا ہے۔ انہوں نے امریکی سفیر کے منہ پہ کہا کہ’’ہمیں امریکی امداد نہیں چاہئے، ہمیں تو صرف اعتماد چاہئے، ہم تو دہشت گردی کے خلاف لڑرہے ہیں‘‘۔ پاکستان کی دو اہم سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہوں نے بھی دو ٹوک موقف اپنایا ہے، نااہلی والے فی الحال خاموش ہیں، پاکستان کی ایک جماعت ہونے کے ناتے ن لیگ کو بھی چاہئے تھا کہ وہ پاکستانیوں کی ترجمانی کرتی مگر شاید وہ ابھی تک جے آئی ٹی کے فوبیا سے نہیں نکلے۔ پاکستان کی سست ترین وزارت خارجہ سے پہلے چینی وزیر خارجہ نے پاکستان کی قربانیوں کوسراہا، امریکی پالیسی کو رد کیا، سویلین بالادستی کی باتیں کرنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ میں ایک جمہوریت پسند ہوں مگر میری گزارش ہے کہ سویلین حکمران قوم کی ترجمانی کا نور تو پیدا کریں، ابھی آپ کے اجلاس جاری ہیں، اب تو روس نے بھی پاکستان کی حمایت کردی ہے، مودی کے دوستو اب تو بول پڑو، چارسال آپ نے وزیر خارجہ کے بغیر گزار دئیے۔ یہ چار سالہ نقصان کون پورا کرے گا۔ آج مجھے ایک شعر بہت یاد آرہا ہے اگرچہ انور مسعود نے یہ شعر بوسنیا کے پس منظر میں کہا تھا مگر اب بھی صادق ہے کہ؎
اتنے بھی سفاک منافق کب دنیا نے دیکھے تھے
کتوں کا منہ چومنے والے قتل کریں انسانوںکو

تازہ ترین