• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ برسوں میں پاک امریکہ بگڑتے تعلقات میں نئی ٹرمپ پالیسی نے نیا شگاف ڈال دیاہے، دونوں ملک 9/11کے بعد ایک دوسرے کے اس حد تک قریب آئے کہ پاکستان بظاہر دوطرفہ محبت میں دل ہی نہیں اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا، پھر روز کے آنے جانے اور ایک دوسرے کو بار بار دیکھ کر تفاوت سا محسوس ہونے لگا، پھر امیر، طاقتور اور بااختیار محبوب کے مصداق امریکہ دہائیوں سے جاری روایتی بے رخی، بے اعتنائی اور عدم اعتماد کے رویے پر اتر آیا۔ کہتے ہیں محبت میں کچھ پسند نہ بھی ہو تو برداشت کرنا پڑتا ہے، پس یہی انجام پاکستان کا مقدر بنا، جس کی خاطر اپنا سب کچھ لٹایا اب خالی ہاتھ اسی بےوفا محبوب سے جان کی امان چاہتا ہے، امریکہ کا پیغام مشہور محاروے کے مصداق ہے۔ "I Love you but I am sorry."اس کو ایک اور تناظر میں ایسے بھی کہا جاسکتا ہے، "I don’t want to kill you but you have to die"
پیغام تو واضح ہے لیکن کیا ہمارے سوچنے اور سمجھنے کا وقت اب بھی نہیں آیا؟ کیا ہم میں ایک آزاد، خودمختار اور جرات مند قوم ہونے کا احساس اب بھی اجاگر نہیں ہوا؟ کیا ایٹمی طاقت کے حامل ملک کی حیثیت سے اپنی قدر ومنزلت کی پہچان ابھی تک نہیں ہوسکی؟ کیا اب بھی ہم اپنے چھوٹے سے ذاتی فائدے کو قومی مفاد پر ترجیح دینے سے باز آنے پر تیار نہیں؟
ٹرمپ انتظامیہ کی حالیہ نئی جنوبی ایشیا پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں امریکہ کے جنوبی ایشیا میں بڑھتے مفادات کا عکس نمایاں ہے وہ اب بھی اس علاقے میں کئی سال تک رہنا چاہتا ہے، معاملہ روایتی طور پر محض ’گرم پانیوں‘ تک رسائی کا نہیں رہا ہے بلکہ دنیا پر معاشی، اقتصادی اور فوجی تسلط کی نئی چال کا ہے، اور جو اس چال میں پہلے کامیاب ہو گیا وہی سکندر! زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اصل معاملہ جنوبی ایشیائی خطے کی سلامتی واستحکام سے بڑھ کر چین اور پاکستان کے گٹھ جوڑ سے خطے سمیت پوری دنیا میں معاشی تبدیلیوں اور نئے ورلڈ آرڈر کا ہے، امریکہ کو معلوم ہے کہ موجودہ حالات میں اس سے بڑا سنہری موقع نہیں ہوسکتا کہ پاکستان اور افغانستان سمیت خطے اور اس سے جڑے دیگر ممالک کے زیر زمین خزانوں اور وسائل پر کنٹرول وسیع اور مضبوط کیا جائے جبکہ چین کے آزاد تجارت کےعزم کو روکنے کے لئے حتمی اور کاری وار کیا جائے۔ چین پاکستان کا ایک قابل اعتماد پارٹنر ہی نہیں قریبی اور دیرینہ دوست بھی ہے، چین کے پاکستان کے ساتھ کئی اہم عالمی امور پر یکساں موقف اور اسٹرٹیجک پوزیشن نے تعلقات کو مستحکم بنا دیا ہے، امریکہ کو یقین ہے کہ چین ایک معاشی و عسکری عالمی طاقت بننے جارہا ہے اور پاکستان کی زمینی وفضائی حدود کی سہولت کے بغیر اس کے خوابوں کی تعبیر ممکن نہیں، چین کی معاشی فتوحات کا سلسلہ پاکستان سے ہو کر افغانستان، روس، سینٹرل ایشین اسٹیٹس اور پھر یورپ تک پہنچے گا، دنیا میں کرنسی کی طاقت کا سرچشمہ ڈالر کمزوری کا شکار ہوجائے گا، یہی نہیں امریکہ کو گمان ہے کہ اس خطے کے وسائل سے محرومی سنہری سے ڈرئوانے خواب میں تبدیل ہوجائے گی۔ پاکستان کا جوہری پروگرام مسلم دنیا کے تحفظ کی ایک پختہ امید اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے بڑا درد سر ہے اور قارئین یہ بات ایک بڑے انکشاف سے کم نہیں کہ نائن الیون کے بعد ’بش مش‘ دوستی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’فرنٹ لائن‘ اتحادی بننے والے ڈکٹیٹر کے زمانے میں جوہری پروگرام کو ختم کرنے کی سازش ناکام بنائی گئی، ڈاکٹر قدیر خان کو پابند سلاسل کرنے کے لئے مرضی کے’اقبال جرم‘ بھی کرائے گئے اور سخت مخالفت کے باعث مشرف کو ہمت نہ ہوئی کہ ڈاکٹر قدیر کو امریکہ کے حوالے کرتا، لیکن ’گیم از سٹل آن‘ بلکہ اب تو بازو مروڑنے کے مراحل میں ہے، یعنی معاشی و اقتصادی طور پر کمزور اورعالمی پابندیاں لگا کر لاچار کرنے کی، بھارت کو فوجی طاقت بنا کرعلاقے کا جعلی تھانیدار بنانے کی، پاکستان کو نئے اندرونی مذہبی، گروہی اور سیاسی خلفشار کا شکار کرنے کی، عالمی اداروں کا بڑا قرض دار ہونے کے سبب اپنی شرائط پر مجبور کرنے کی، افغانستان کو مزید انتشار اور غیر مستحکم کرنے کی، سی پیک کو ’پیک‘ کرنے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی 60فی صد نوجوان آبادی کو محروم اور ناامید کرنے کی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس نئے چیلنج سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں؟ میرے خیال میں ہم سب کچھ جانتے ہیں لیکن تیار نہیں اور اگر تیار ہیں بھی تو ابھی کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں کیونکہ ہم عادی مجرم ہیں، دو لگیاں تے وِسر گئیاں؟ تاہم یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ ٹرمپ پالیسی کے اعلان کے ساتھ ہی چین اور روس کے فوری ردعمل نے پاکستانی قیادت کو حوصلہ دیا، پھر سیاسی وعسکری قیادت نے بھی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے ماضی کے برعکس پہلی مرتبہ انتہائی مضبوط، طاقتور اور خودار سفارتی رویئے کا مظاہرہ کیا، چند روز پہلے پاکستان میں موجود امریکی سفیر کو فیصلہ کن انداز میں بتا دیا گیا ہے کہ افغانستان میں 16برس سے جاری فوجی کارروائی کو مزید جاری رکھنا تباہی و بربادی کے علاوہ خود امریکہ کے لئے انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے، پاکستان سمجھتا ہے کہ افغان مسئلے کا حل فوجی نہیں صرف سیاسی ہے، پاکستان نے اس مقصد کے لئے’عظیم الجث سیاسی فورم‘ کی فوری تشکیل کا جامع منصوبہ پیش کر دیا ہے، جس میں نہ صرف افغان طالبان، سیاسی جماعتوں، قبائل، دیگر متحارب گروپ اور افغان حکومت سمیت پاکستان، امریکہ، چین، روس اور ایران کے نمائندے بھی شامل ہونے چاہئیں، اسی حکمت عملی کی تیاری کے سلسلے میں وزیر خارجہ کا دورہ امریکہ ملتوی کر کے پہلے چین، روس، ترکی، ایران اور دیگر ہم خیال ملکوں سے مشاورت کا فیصلہ کیا گیا، یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر ایک طرف پاکستان چین کی ترقی کے لئے لازم ملزوم ہے تو وہیں امریکہ بھی پاکستان کی مدد کے بِنا پہلے کامیاب ہوسکا نہ اب کوئی اور آپشن اس کے پاس ہے، دوسری طرف پاکستان نے اپنی اندرونی سلامتی کی صورت حال کو درپیش لاحق خطرات سے نمٹنے کی تیاری بھی شروع کردی ہے، سیاسی، عسکری اور سفارتی حکام کی تیار کردہ ایک جامع اور واضح پالیسی کو پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن میں پیش کر کے منظور کرایا جائے گا۔ ایک طاقتور شخصیت نے ایک حالیہ غیر رسمی گفت گو میں تسلیم کیا ہے کہ ماضی میں بیرون ملک سے مسلط کردہ حالات کے ردعمل میں عالمی ومقامی اسٹیبلشمنٹ نے کئی گروپس بنائے جنہیں استعمال کرنے کے بعد بے امان و بے سہارا چھوڑ دیا گیا جو پاکستان اور خطے کے لئے خطرہ بن گئے، اس خطرے کو کم یا ختم کرنے کے لئے اب نہیں ڈس مینٹل کر کے سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش کی جارہی ہیں گو کہ معاشرے میں اس حکمت عملی کو ابھی پوری طرح پذیرائی نہیں مل پارہی، تاہم اس مسئلے کا واحد حل بھی یہی ہے۔ یہ امر ناقابل تردید ہے کہ ہم ہمیشہ امریکی جائز و ناجائز دبائو کے سامنے جھکتے آئے ہیں اسکی بڑی عبرتناک مثال 2 مئی کو امریکی فوج کا براہ راست ایبٹ آباد مڈنائٹ آپریشن ہے جس کے بعد ہم نے سیاسی وعسکری سطح پر یکجا ہو کر نئی پالیسی بنانے اور باغیرت قوم کی حیثیت سے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن پھر ہماری غیرت سو گئی اور آج ہمیں اس سے بدتر حشر کا سامنا ہے۔ وقت آن پہنچا ہے کہ خواب غفلت سے جاگا جائے اور آنکھوں پر بندھی ذاتی مفادات کی پٹی کو اتار پھینکا جائے،ایک قوم بن کرسوچا اور عمل کیا جائے، امریکہ پاکستان کا دشمن ہے نہ ہی دونوں ملکوں کے درمیان کوئی معاشی یا فوجی میدان میں مقابلہ اور یہ بھی حقیقت ہےکہ دنیا کی ابھرتی طاقت چین بلاوجہ ہمارے عشق میں مبتلا اور فدا نہیں ہو رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر دوستیاں ذاتی نہیں مفاداتی ہوتی ہیں، پاکستان کو بھی اپنی جغرافیائی اہمیت اور جوہری طاقت کا احساس ہونا چاہئے، ہمیں ہر صورت اپنے عوامی و قومی مفاد کو مقدم رکھنا چاہئے، ایک طرف امریکہ کے ساتھ بلند عزم، حوصلے، تدبر اور طاقت کے ساتھ بات کی جائے تو دوسری طرف چین کے ساتھ بھی واضح حقائق اور اصولوں پر مبنی تجارتی دوستی کو پروان چڑھانا چاہئے، اپنی بقا وسلامتی کے تحفظ کے لئے ایک ہو جائیں اور چیلنجز سے نئے تقاضوں کے مطابق نمٹنے کی واضح وجامع پالیسی بنائیں۔ قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو غیرت، قومی حمیت اور عوامی طاقت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے سینہ سپر ہوجاتی ہیں۔
"No permanent friend, no permanent enemy, only national interest is permanent”.

تازہ ترین