حضرت امام حسین ابن علیؓ کے مزار پر اس ناچیز کی تیسری حاضری تھی۔ عیدالاضحی کے دوسرے دن روانگی ہوئی۔ تیسرے دن کربلا اور نجف میں زیارات مکمل کیں اور چوتھے دن صبح پاکستان واپسی ہوگئی لیکن کربلا اور نجف میں پاکستان میرے ساتھ ساتھ تھا۔حضرت حسین ؓ کے مزار پر پہلی حاضری 1994میں ہوئی تھی۔ دوسری مرتبہ 2003 میں صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کے کچھ دنوں بعد اس مزار پر حاضری ہوئی تو مزار کے درو دیوار پر صدام حسین کے دور میں مظاہرین پر چلائی جانے والی گولیوں کے نشانات موجود تھے۔2017میں تیسری مرتبہ حاضری ہوئی تو حضرت حسینؓ کے مزار کی حالت بدل چکی تھی۔ گولیوں کے نشانات تزئین و آرائش میں گم ہوچکے تھے اور یہ مزار سکون و نجات کے متلاشیوں کی بے چین نگاہوں کا مرکز نظر آیا جو اس مزار کے ارد گرد قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف تھے اور درود پڑھ رہے تھے۔ حضرت حسینؓ سے محبت حب رسولﷺ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ اس مزار پر مولانا محمد علی جوہر کے یہ اشعار یاد آتے ہیں؎
ہر ابتداء سے پہلے، ہر انتہا کے بعد
ذات نبیؐ بلند ہے، ذات خدا کے بعد
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں، مگر مصطفیٰ ؐکے بعد
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
ستمبر کے پہلے ہفتے میں کربلا کا موسم اتنا گرم تھا کہ دوپہر کی دھوپ پانی کو ابالنے کے لئے کافی تھی۔ موسم کی یہ گرمی حضرت حسینؓ اور ان کےجانثاروں کی ہمت و شجاعت کے سامنے بھی پگھل گئی تھی۔72افراد کا قافلہ ہزاروں کی فوج کے سامنے ڈٹ گیا اور رہتی دنیا تک جبر و استبداد کے خلاف مزاحمت اور حریتِ فکر کی علامت بن گیا۔ اس مزار کے احاطے میں کوئی ہاتھ کھلے چھوڑ کر نماز ادا کررہا تھا، کوئی ہاتھ باندھ کر نماز ادا کررہا تھا۔ مجھے مسجد نبوی ؐ یاد آگئی۔ مسجد الحرام یاد آگئی۔ وہاں بھی سب مسلمان اپنے فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ رواداری مجھے حضرت حسینؓ اور حضرت عباسؓ کے مزاروں کی زیارت کرنے والوں میں بھی نظر آئی۔ اقبالؒ نے کہا تھا؎
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
نجانے مسجد نبویؐ میں اکٹھے نمازیں ادا کرنے والے اور غم حسینؓ میں آنسو بہانے والے دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے کیوں الجھتے ہیں اور ایک دوسرے کا خون کیوں بہاتے ہیں؟ کربلا سے نجف اشرف پہنچا تو ایسا لگا کہ علم کے دروازے پر کھڑا ہوں۔ ترمذی شریف کے مطابق نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔ اس سفر میں نہج البلاغہ بھی میرے ساتھ تھی جو حضرت علیؓ کے علم و فضل سے مستفید ہونے کا بہترین ذریعہ ہے۔ حضرت حسینؓ اور حضرت علیؓ کے مزاروں پر گرم موسم کے باوجود انسانوں کا ہجوم تھا۔ اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ ان نوجوانوں کی عمریں پندرہ سے پچیس سال کے درمیان تھیں۔ شکل و شباہت اور لباس سے یہ نوجوان ماڈرن نظر آتے ہیں لیکن حسینؓ اور علیؓ کے مزاروںپر انہیں قرآن پاک کی تلاوت کرتے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل میں ایک تبدیلی آرہی ہے۔ علماء بےشک ایک دوسرے سے اختلاف کریں لیکن محمدﷺ سے وفا رکھنے والوں کے دل ایک دوسرے کے لئے دھڑکتے ہیں۔
نجف میں آیت اللہ بشیر نجفی صاحب سے ملاقات ہوئی جو پچھلی پانچ دہائیوں سے عراق میں مقیم ہیں۔ ان کی محفل میں گلگت سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے بڑے درددل کے ساتھ مجھے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں پر بہت ظلم ہورہا ہے خدارا ان مظلوموں کے لئے آواز بلند کیجئے۔ حضرت علیؓ کے مزار پر اس خاکسار نے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر، فلسطین اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لئے دعا کی۔ شیر خدا کے مزار پر بار بار یہ دعا دل سے ایک فریاد بن کر نکلتی رہی کہ اے اللہ ایک قرآن اور ایک رسول ﷺ کو ماننے والے مسلمانوں کو فرقہ وارانہ تعصبات سے بالا تر کردے کیونکہ مسلمانوں کے دشمن اسی فرقہ واریت کو ایک ہتھیار کے طور پرمسلمانوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ لبنان سے شام تک اور عراق سے پاکستان تک مسلمانوں کے دشمنوں نے فرقہ وارانہ تنظیموں کو پالا پوسا اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ افسوس صد افسوس کہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی بھی مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف کم اور مسلمانوں کے خلاف زیادہ بولتی ہے۔ سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف اسلامی ممالک کی ایک مشترکہ فوج قائم کرنے کا اعلان ہوا اور ایک پاکستانی راحیل شریف کواس کا سربراہ بنایا گیا۔ بدقسمتی سے یہ اقدام بھی ہمیں متحد کرنے کی بجائے مزید تقسیم کرنے کا باعث بنا۔بہتر ہوتا کہ اس تنظیم میں ان تمام ممالک کو شامل کیا جاتا جن سے تعلق رکھنے والے مسلمان مسجد نبویؐ اور مسجدالحرام میں ایک ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ پہلے یہ کام نہیں ہوا تو اب کرلیا جائے۔ اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کسی ایک ملک کے مفادات کے لئے نہیں پوری امت مسلمہ کے مفادات کے لئے قائم کی جائے۔ آج امت مسلمہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ فرقہ واریت ہے۔ آج ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ واقعہ کربلا میں حضرت حسینؓ کے ہمراہ ان کے جن بھائیوں نے جام شہادت نوش کیا ان میں عثمان ابن علیؓ ، ابوبکر ابن علیؓ، ابوبکر ابن حسنؓ اور عمرؓ بھی شامل تھے۔ حضرت علیؓ نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر ؓ، عمرؓ اور عثمانؓ رکھے۔ جن ہستیوں سے حضرت علیؓ کو محبت تھی ان سے حضرت حسینؓ کو بھی محبت تھی۔ ہم فقہی اختلافات ختم نہیں کرسکتے لیکن اختلافات کی جگہ مشترکات کو ترجیح تو دے سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک سادہ سے شعر میں شہید کربلا سے محبت کے فلسفے کو اس طرح بیان کردیا؎
جس طرح مجھ کو شہید کربلا سے پیار ہے
حق تعالیٰ کو یتیموں کی دعا سے پیار ہے
آج کربلا اور نجف سے پھر یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ محمدﷺ کی وفا میں ڈوبے پرستارو فرقہ بندیاں چھوڑ کر ایک ہوجائے اور مسلمانوں کے اندر فساد پھیلانے والوں کو پہچانو۔ فیض احمد فیض نے کربلا اور نجف کا پیغام ان ا لفاظ میں دیا تھا؎
انصاف کے نیکی کے مروت کے طرف دار
ظالم کے مخالف ہیں تو بےکس کے مددگار
جو ظلم پر لعنت نہ کرے آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں وہ منکر دیں ہے