• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 9 سالہ ہارون انگلینڈ کے ایک اسکول میں پڑھتا تھا۔بیشتر بچوں کی طرح وہ پڑھائی میں نہ تو بہت ذہین تھا اور نہ ہی اسکا شمار نالائق طالب علموں میں ہوتا تھا۔ اپنے باقی کلاس فیلوز کی طرح وہ روزانہ صبح سویرے اٹھ جاتا تھا ، اس کی امی اسے تیار کرتیں اور وہ اسکول چلا جاتا ۔ ہارون ایک بہت معمولی سا بچہ تھا جس نے ایک دن کلاس میںغیر معمولی اور حیران کن بات کردی۔وہ اپنی کلاس کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے اونچی آواز میں بولاکہ میں داعش کا حامی ہوں۔ ہارون کوئی مذاق نہیں کر رہاتھا۔بلکہ واقعی ہی وہ داعش کی حمایت کررہا تھا۔ہارون کے ساتھ کیا ہوا یہ میں آپ کو بتاتا ہوں لیکن زیادہ ضروری سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ ایک نو سالہ طالب علم اپنی کلاس میں داعش کی حمایت کا اعلان کرنے لگا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوجوانوں میں انتہاپرستی پھیل رہی ہے۔ ابھی حالیہ واقعات میں ہم نے دیکھا کہ کراچی کی یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے ایک سیاستدان پر حملہ کرنے کی کوشش کی، ایک اور طالب علم ایک بس پر حملہ میں ملوث تھا۔ حتیٰ کہ فرانس کے ایک اخبار پر حملہ کرنے، امریکا میں بوسٹن بم دھماکہ کرنے یا پھر انگلینڈ کے 7/7 حملہ کرنے یا بیلجئم میںدھماکہ کرنے والے یہ تمام لوگ کسی ٹریننگ کیمپ یا کسی دہشتگردی سے متاثر ملک کی جانب سے اپنے ٹارگٹ کو حملہ کرنے نہیں آئے تھے بلکہ انکا تعلق اچھے خاندان اور ترقی یافتہ ملکوں سے تھا۔مگر اسکے باوجود یہ دہشتگردی کی جانب مائل ہوگئے جس طرح اسامہ بن لادن ایک عزت دار اور امیر گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود دہشتگردی میں ملوث ہوگیا۔ عام طور پر دہشتگردوں کی برین واشنگ کسی کیمپ میں آمنے سامنے بیٹھ کر کی جاتی رہی ہے یعنی کوئی ایسا یہ کام کر سکتا تھا جو آپکی زندگی کے قریب ہو جیسا کہ کوئی استاد یا مبلغ لیکن اب دنیا بدل چکی ہے اب سوشل میڈیا یا آئن لائن نیٹ ورکنگ سائٹس پر اتنا دہشتگردی کی طرف مائل کرنے والامواد موجود ہے کہ بغیر خود موقع پر موجود ہوئے کسی کو بھی انتہا پسند بنا سکتی ہیں۔ ہارون کو اسی طرح داعش کا تیار کر دہ وہ مواد ملا جس میں ایسی ویڈیوز بھی شامل تھیں جن میں انکے لوگوں پر ظلم ہوتا دکھایا گیا حالانکہ وہ خود ایک دوسرے کو اذیت دیتے اور انکے گلے کاٹتے ہیں۔ایسے مواد کو دہشتگردوں کے آن لائن ایجنٹس انتہائی نفیس انداز میں بنا کر پیش کرتے ہیں جس سے لوگوں کو پھنسا کر انکی ہمدردیاں اپنے لیے سمیٹ لیتے ہیںاور پھر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ داعش اور دوسری تنظیموں نے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایسی بہت ساری گیمز متعارف کروائی ہیں۔انہی میںسے ایک گیم میں دکھایا گیا کہ کس طرح پلیئر ائیرپورٹ پر قبضہ کر کے اس کو سیل کر دیتا ہے اس طرح کی خیالات کو وہ لوگوں، طالب علموں اور نوجوانوں کے دماغوں میں بھر دیتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق نوجوان اور طالب علم عمر کے بہت متاثر کن حصے میں ہوتے ہیںان سے جو باتیں کی جائیں ۔ ان کو جو مواد دکھایا جائے یہ اسی کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔اور ان کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور یہ کس طرف جارہے ہیں۔ اسکی ایک مثال بلیو وہیل گیم میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جسکا آج کل بہت چرچہ ہے اگرچہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے چلنے والی تمام خبریں درست نہیں ہیں لیکن یہ گیم اپنا وجود ضرور رکھتی ہے۔ اس گیم میں انتہائی خاص طریقے سے آہستہ آہستہ نوجوانوں کے ذہن کو بے حس کر کے انکا برین واش کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جان لینے کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ہوتا ہے؟ کیوں کچھ نوجوان اور طالب علم اسکا شکار ہو جاتے ہیں؟ پہلی تو بات یہ ہے کہ ہارون جیسے لوگوں کو معاشرہ اپنے سے الگ کر دیتا ہے ،انکو اسکول میں ستایا جاتا ہے، انکا مذاق اڑایا جاتا ہے اور انکو تنہائی کا شکار کردیا جاتا ہے ایسے نوجوانوں کا امکان زیادہ ہوتاہے کہ وہ دہشتگردوں کی ان چیزوں سے متاثر ہو سکیں ۔کیونکہ جب یہ لوگ انتہا پسند تنظیموں کے لوگوں سے بات چیت کرتے ہیںتو ان کا طرز ایسا ہوتا ہے کہ ان کو اپنائیت کاا حساس ہوتاہے اورانکے اندر ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔  ماں باپ ،اساتذہ اور اداروں کواس چیز کا موازنہ کرنے کے لیے بہت اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔سب سے پہلے ان کو یہ باور کروانا ہوگا کہ کوئی بھی بچہ یا نوجوان اذیت، تکلیف اور برے رویئے کا شکار نہ ہونے پائے ،جس کی وجہ سے وہ دہشتگردوں کے چنگل میں آسانی سے پھنس جاتا ہے، دوسرا اسکی مکمل نگرانی کی جائے کہ وہ کس طرح کا مواد انٹرنیٹ پر دیکھتا ہے اور کن چیزوں تک اسکی رسائی ہے اس طرح ہم اسکو بری چیزوں سے بچا سکتے ہیں اور تیسری اور سب سے اہم چیز کہ اگر وہ بچہ یا نوجوان ایسے مواد کا شکار ہو چکا ہے تو اسکو ہماری مدد اور بہترین ماہر نفسیات کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔اور حکومت کو بھی چاہیے کہ ہنگامی طور پر ایسے مواد تک رسائی ختم کرے۔سب سے اہم سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایسے نوجوان دہشتگرد ہیں یا دہشتگردی کا شکارہیں؟ اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے، اگر یہ لوگ کوئی انتہائی طرز کے غلط کام سر انجام دے چکے ہیں تو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس برائی کا صرف شکار ہیں؟ لیکن اگر ان نوجوانوں کا برین واش ہو چکا ہے اور ان کاا ستعمال کیا گیا ہے توکیا یہ مظلوم نہیں؟ جہاں تک رہی ہارون کی بات تو اسے نہ تو گرفتار کیا گیا تھا نا ہی جیل بھیجا گیا ۔برطانوی حکومت نے "Prevent" کے نام سے ہارون جیسے بچوں کے لیے ہی ایک پروگرام بنا رکھا ہے اس پروگرام کے تحت ایسے بچوں اور نوجوانوں کو درست رہنمائی دی جاتی ہے۔ ان کی اصلاح کی جاتی ہے اور ان کا نقطہ نظر تبدیل کیا جاتا ہے۔ایک سال کے علاج اور ماں باپ ، اساتذہ اور Preventپروگرام کی مدد کے بعد ہارون اپنی نارمل زندگی پھر سے شروع کرنے لگ گیا۔ہمیںبھی ایسا پروگرام تشکیل دینا چاہیے جس میں بچوں اور نوجوانوں کا ضرورت کے تحت ان کو مدد فراہم کی جا سکے۔ حالیہ دنوں میں اس چیز کی باز گشت سنائی دی کہ یونیورسٹیوں کو اپنے تمام طالب علموں کا ڈیٹا سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ شئیر کرنا چاہئے جسکی چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک خط لکھ کر سختی سے مخالفت کی۔ایسے طالب علم کو مجرم تصور نہ کیا جائے جن کے دماغ میں ایسے خیالات جنم لیتے ہیں۔ اگر ہم نے ایسے طالب علموں کو اٹھا کر انکی تفتیش کرنا شروع کر دی یا انکو جیلوں میں پھینکنا شروع کر دیا تو ہم ایسا کر کے صرف دشمنوں کی مدد کر رہے ہوں گے۔ہمیں ان کی مدد کرنی ہے ان کی رہنمائی کرنی ہے اور تفصیلی طور پر ان کے غلط خیالات کی اصلاح کرنی ہے۔بچے اور نوجوان بڑوں کی طرح نہیں ہوتے اور اتنے سمجھدار نہیں ہوتے ان کو بہکایا جاتا ہے۔ اگر ہم ان نوجوانوں اور بچوں کو جن کو ایک سازش کا شکاربنایا جارہاہے انہیں اندھا دھند سزا دینا شروع ہوگئے تو ہم نہ صرف ان کا مستقبل تباہ کریں گے بلکہ اپنی ناکامیوں کی سزا بھی ان کو دیں گے۔

تازہ ترین