• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Todays Print

کراچی(تجزیہ:مظہر عباس)عمران خان این اے۔120میں اپنی پارٹی کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں اور وہ یہ مانتے ہیں کہ وہ بہتر کرسکتے تھے۔کچھ یہی حال مسلم لیگ(ن)کے کیمپ میں بھی ہےبلکہ ان کے لیے کچھ زیادہ ہی الارمنگ صورتحال ہے کیوں کہ یہ حلقہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ہے۔

آئندہ آنے والے چند ماہ میں ، 2018کے انتخابات سے قبل عمران خان کا عنصر حکمران جماعت کو کس حد تک نقصان پہنچاسکتا ہے۔کیا تمام وجوہات کی موجودگی میں مسلم لیگ(ن)پنجاب میں عمران خان کے عنصر کا مقابلہ کرسکے گی۔وہ جانتے ہیں کہ شریف برادران کمزور ہوگئے ہیں تاہم وہ میدا ن سے بالکل باہر نہیں ہوئے ہیں ، عمران خان آئندہ انتخابات میں مائنس شریف برادران کے جانا چاہتے ہیں کیوں کہ نواز شریف یا شہباز شریف میں سے کسی ایک کی بھی موجودگی ان کے گیم پلان کے لی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

2011تک بہت سے سیاسی پنڈتوں نے سیاست میں شریف خاندان کی موجودگی میں عمران خان کے عنصر کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی، تاہم کچھ نے یہ ضرور کہا تھا کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ(ن)سے زیادہ پیپلز پارٹی کو زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔انہوں نے عمران خان کو بالکل ہی خارج از امکان سمجھ لیا تھا، وہ صرف انہیں ایک مقبول کرکٹر، شوبز اسٹائل کے سیاست دان سمجھتے تھےجو موسیقی اور ڈانس کے ذریعے ہجوم کو اپنی جانب مرکوز کرتا تھا۔2013میں عمران خان نے خیبر پختونخوا میں جیت حاصل کرکے اپنے ناقدین کو خاموش کرادیااور ریکارڈ 80لاکھ ووٹ حاصل کرکے مسلم لیگ(ن)اور پیپلز پارٹی کے بعد ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔

گزشتہ چار برسوں میں وہ دوسری بڑی جماعت بن چکے ہیں اور اب ان کا ہدف 2018کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔کیا وہ اتنی سیٹیں جیت سکیں گے کہ مرکز میں حکومت قائم کرسکیں ؟عمران خان سولو فلائٹ کے لیے تیاریاں مکمل کرلی ہیں اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کی سولو پولیٹکس سے متاثر نظرآتے ہیں، جنہوں نے کبھی بھی کسی الائنس کے ساتھ انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، چاہے وہ 1970کے انتخابات ہوں یا پھر1977کے انتخابات جب کہ وہ غیر مقبول بھی تھے۔ یہاں تک کہ مارشل لاء کے بعد بھی جب اکتوبر، 1977میں الیکشن کا اعلان ہوا تو بھٹو کی پیپلز پارٹی نے تمام پیپلز پارٹی مخالف قوتوں کے خلاف انتخاب میں حصہ لیا۔کئی برس بعد بھی عمران خان اپنے سیاسی لائحہ عمل پر گامزن ہیں اور پارٹی کی کمزور آرگنائزیشن کے سبب وہ کراچی میں پیدا ہونے والے خلاء کو بھرنے سے قاصر رہے ہیں، اسی طرح کچھ اچھے عوامی اجتماعات کے باوجود وہ اندرون سندھ میں بھی اصل حریف کے طور پر ابھرنہیں سکے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے برعکس عمران خان سندھ میں نئے چہرے سامنے نہیں لاسکے۔

گزشتہ 4برسوں میں قابل منتخب افراد کو منتخب کرنے کا ان کا فیصلہ ، ان کی سیاست کو خاصی حد تک نقصان پہنچاچکا ہے۔ایک طرف انہوں نے ابھرتے ہوئے نوجوان پی ٹی آئی رہنمائوں کو پچھلی سیٹ پر رکھا ہوا ہے، جب کہ دوسری جانب کچھ متنازعہ ماضی کے حامل رہنمائوں کو فرنٹ سیٹ پر رکھا ہوا ہے۔ان کی طاقت اب بھی نوجوانوں، پاناما کے بعد کی صورتحال اور پیپلز پارٹی کی بری ریٹنگ میں ہے۔

عمران خان اور ان کی جماعت اسے آئندہ انتخابات میں ایک موقع غنیمت جانتے ہیں۔اسی لیے انہوں نے کچھ روایتی انداز کے دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو اپنے ساتھ شامل کیا ہے۔ان کی طاقت خاصی حد تک اب بھی قائم ہےتاہم این اے۔4پشاور میں ضمنی انتخابات ان کے اور ان کی جماعت کے لیے ایک اور امتحان ثابت ہوگا۔اگر عمران خان اپنی سیاسی قوت کھو بیٹھتے ہیں تو ایسا ان کی تنظیمی قابلیت کی وجہ سے ہوگا۔عمران خان جماعت اسلامی سے بھی علیحدہ ہونا چاہتے ہیں ، جو کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی اتحادی ہےتاہم، وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی طرز کی سیاست جس میں عوامی اجتماعات میں موسیقی اور ڈانس شامل ہوتا ہےاس پر تنقید کرتی ہےلیکن عمران خان اسے اپنی طرز کی سیاست گردانتے ہیں جس میں وہ کامیاب بھی رہے۔

جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل کا احیا چاہتی ہے۔پارٹیوں میں ان کے بہت سے ناقدین جنہیں عمران خان کے عنصر سے نقصان پہنچا تھا، جیسا کہ پیپلز پارٹی ، جے یو آئی(ف)اور اب مسلم لیگ(ن)پر بھی اثرات پڑ رہے ہیں، ان سب کا ماننا ہے کہ ان کی مقبولیت کا گراف گر رہا ہے جس کے سبب خیبر پختونخوا میں ان کاچانس کم ہوگیا ہے۔دریں اثناء ہمیں اب شاید عمران خان اور نواز شریف کے درمیان براہ راست مقابلہ ہوتا نظر نہ آئے ، کیوں کہ نواز شریف نااہل ہوچکے ہیں اور ان کی امیدیں اب شہباز شریف سے وابستہ ہیں، جو خود بھی خطرات سے دوچار ہیں۔عمران خان اور پی ٹی آئی کو شریف برادران کے سیاست سے مکمل بے دخل ہونے پر اپنے چانسز زیادہ نظر آتے ہیں  اور ان کے جلاوطن ہونے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا، لیکن اگر نواز شریف اور شہباز شریف نے آئندہ انتخابات میں عمران خان کو چیلنچ کرنے کا فیصلہ کرلیا تو چاہے ان کی قسمت میں کچھ بھی ہو،2018کے عام انتخابات خاصے دلچسپ ہوجائیں گے۔

شریفوں اور عمران خان کے درمیان سیاسی تنائو بہت زیادہ اور ذاتی حیثیت کا حامل ہوچکا ہےکیوں کہ دونوں ایک دوسرے پر خاصے سنگین الزامات لگاچکے ہیں، جن میں ذاتی نوعیت کے حملے بھی شامل ہیں۔ہماری سیاست میں ایسا شاز ونادر ہی ہوتاہےکہ ایک شخص کا عنصر عملی طور پر ایک سے ذائد جماعتوں پر اثر انداز ہو۔اس طرح عمران خان ایک تاریخ رقم کرچکے ہیں کیوں کہ 2013سے ان کا عنصر پیپلز پارٹی ، اے این پی اور جے یو آئی کے لیے بڑی پریشانی کا سبب بن چکا ہے، کیوں کہ یہ جماعتیں عمران خان سے براہ راست متاثر ہوئی ہیں۔شاید ، 2018 میں مسلم لیگ(ن)ان کے وزیر اعظم ہائوس جانے کی راہ میں واحد بڑی رکاوٹ ہےجو کہ کمزور اور شریف برادران کے غیر یقینی مستقبل کے باوجود بہر حال ایک سیاسی قوت ہے۔عمران خان اس سیاسی خلا کو پر کرنے کی کوشش کریں گے ۔

عمران خان کبھی کبھی روایتی سیاست میں غیر روایتی طریقے اختیارکرتے ہیں، جو کہ کچھ پارٹی رہنمائوں کی تجاویز کے خلاف ہوتے ہیں ، پیپلز پارٹی کے خلاف نرم گوشہ، جب کہ مسلم لیگ(ن)کے سخت خلاف ہیںلیکن عمران خان سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی نہیں بخشتے۔ان کی طرز سیاست شاید نواز شریف،آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور اسفندیار ولی کو متحد ہونے پر مجبور کردے۔اس حوالے سے عمران خان کی سوچ یہ ہےکہ اگر یہ سب مل بھی جائیں تب بھی ان کی جماعت کو نقصان نہیں پہنچاسکتے ۔پی ٹی آئی کی قیادت اور عمران خان بذات خود بھی جانتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن)اور شریف برادران کی اصل قوت پنجاب میں ہے، جسے سوائے جنرل مشرف کے دور میں1985سے اب تک کسی نے کوئی گزند نہیں پہنچائی ہے۔

عمران خا ن جانتے ہیں کہ پنجاب فتح کیے بغیر، پاکستان میں جیت حاصل نہیں کرسکتے، آئندہ آنے والے چند برسوں میں پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ابھرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے، ایسے میں پی ٹی آئی کے پاس موقع ہے کہ وہ دینی جماعتوں سمیت کسی کو موقع دیے بغیر وہاں اپنی جگہ بنائے۔عمران خان جو کہ 2008تک ایک معمولی سیاست دان سے زیادہ کچھ نہیں تھے ، اب ان جماعتوں کے لیے سخت حریف بن چکے ہیں، جنہوں نے انہیں مکمل طور پر نظر انداز کردیا تھا۔ایسی صورتحال میں جب شریف برادرارن سیاست سے بے دخل کردیئے جاتے ہیں ، تو پھر ممکنات میں کیا ہوگا۔عمران خان کی سیاست خاصی دلچسپ ہے۔ان کا احتجاج اور دھرنوں کا طریقہ کار بھی کنٹرول، تفریح اوراپنے مطالبات کے لیے افراتفری مچانے سے مزین ہے۔دھرنا دینا ایک الگ بات ہے، جب کہ ناچ گانا اس سے مختلف ، تاہم ان دونوں کے ملاپ سے انہوں نے سیاست میں ایک نیا طرز متعارف کرایا ہے، جس نے نوجوانوں اور فیملیوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔

تاہم اس عمل میں ان کے کارکنان اپنے ناقدین کے خلاف خاصے بے صبرے ثابت ہوئے ہیں، خاص طور پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کو خاصا ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔یہاں اس طرز کی ذمہ داری عمران خان پر ڈالنا بھی غلط ہوگا۔سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت کی حزب اختلاف نے بےہودہ زبان استعمال کرنے پر ہدف تنقید بنایا تھا۔عمران خان نے بذات خود بھی اپنی خواتین کارکنان سے بدتمیزی کی شکایات موصول ہونے کے بعد صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی۔

عمران خان نے دھرنے کا انداز معروف عرب بہار خاص طور پر التحریر اسکوائر پر ہونے والے دھرنے سے اخذ کیا ہے۔جس کے ذریعے سابق مصری صدر حسنی مبارک کی حکومت گرائی گئی تھی۔2014میں عمران خان نے 126دنوں تک دھرنا دے کر تاریخ رقم کی تھی ، جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔عمران خان کے ناقدین دائیں بازو اور بائیں بازو دونوں طرح کے ونگز میں موجود ہیں، جو کہ ان پر سیاست میں بری طرہ ڈالنے پر خاصی تنقید بھی کرتے ہیں، تاہم کچھ برسوں میں ان کے دھرنے کے طریقہ کار کو ایک نیا احتجاجی طریقہ بنالیا گیا ہے، جس نے پرانی طرح کی عدالتی گرفتاری اور افراتفری کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

70کی دہائی میں سیاست مختلف تھی، جو کہ دائیں بازو اور بائیں بازو کے درمیان گھومتی تھی، جو کہ شریف اور عمران کے زمانے میں مفقود ہے۔چاہے عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں کامیاب ہو یا نہیں، تاہم عمران خان گزشتہ 20برسوں میں سیاست میں ایک نیا طرز متعارف کراچکے ہیں، جس نے لبرل اور دائیں بازو کی سیاست کے لیے جگہ مختصر کردی ہے۔عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری کی طرح خود اپنا نقصان کرسکتے ہیں تاہم کوئی بھی ان کی سیاسی حیثیت سے انکار نہیں کرسکتا۔

تازہ ترین