• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی آبی جارحیت کے سدباب کیلئے کوششیں تیز کی جائیں،قائمہ کمیٹی

Todays Print

اسلام آباد ( نمائندہ جنگ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل نے حکومت کو بھارتی آبی جارحیت کے سدباب کے لئے عالمی سطح پر کوششوں کو مزید تیز کرنے کی ہدایت کر دی۔دونوں ممالک کے مابین اعتماد کی کمی ہے اس لئے ڈیمزپر ڈیڈ لیول کے نیچے اسپیل وے بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سندھ طاس معاہدے کی بھارتی خلاف ورزیوں سے متعلق عالمی بینک کی نگرانی میں حالیہ پاک بھارت مذاکرات پر آئندہ اجلاس میں بریفنگ مانگ لی ۔

کمیٹی اجلاس میں  پاکستان کے مغربی دریاؤ ں سے بھارت کی طرف سے اپنی ایک لاکھ 40 ایکڑ زمین سیراب کرنے کا انکشاف کیا گیا ہے۔   کمیٹی  نے سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت میں مغربی دریاؤں پر بننے والے ڈیمز پر ڈیڈ لیول سے نیچے سپیل وے نہ بنانے اور ڈیمز سے مٹی نکالنے کے لئے دیگر آپشن اختیار کرنے کی سفارش کر دی اور اس حوالے سے وزارت کو اقدامات اٹھانے کی ہدایت بھی کی۔ قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سردار محمد یعقوب خان ناصر کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بھارت میں مغربی دریاؤں پر بننے والے ڈیمز اور اس حوالے سے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد کرانے کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

جوائنٹ سیکرٹری آبی وسائل نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ وزارت پانی و بجلی کو علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ واپڈا وزارت پیٹرولیم میں شامل ہو گیا۔ واپڈا پانی کے بڑے ذخائر اور ہائیڈرل پاور کوڈیل کرتا ہے۔ ارسا صوبوں کے درمیان 1991ء کے معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم کے معاملات دیکھتا ہے۔ فیڈرل فلڈ کمیشن صوبوں کے درمیان سیلاب کے حوالے سے مہم جوئی اختیار کرتا ہے اور فلڈ کمیشن آف پاکستان سندھ طاس معاہدے کا کسٹوڈین ہے۔ بھارت میں مغربی دریاؤں پر بھارت کو ڈیم بنانے کا حق حاصل ہے مگر اس کی ڈیزائننگ پاکستان کی مشاورت سے ہو گی۔ پاکستان کو ڈیمز کی ڈیزائننگ پر اعتراض تھا۔

کمشنر پاکستان کمیشن فار واٹر نے کمیٹی کو بتایا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں کا پانی انڈیا بھی زراعت اور ہائیڈرل بجلی کے لئے کچھ مقرر کردہ شرائط کے تحت استعمال کر سکتا ہے۔ معاہدے میں ہائیڈرل بجلی کے لئے بننے والے ڈیمز کے ڈیزائن میں دریاؤں کے بہاؤ کو کم رکھنے کی شرط تھی مگر جو ڈیزائن اختیار کئے گئے وہ معاہدے کے خلاف تھے۔ اس لئے ورلڈ بینک اور عالمی ثالثی عدالت بھی گئے۔ ڈیمز میں پانی کے ڈیڈ لیول کے نیچے اسپیل وے شامل ہیں جن پر اعتراض ہے۔ بھارت ابھی 1.4 لاکھ ایکڑ زمین مغربی دریاؤں سے سیراب کر رہا ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین اعتماد کی کمی ہے اس لئے ڈیمز پر ڈیڈ لیول کے نیچے اسپیل وے بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اس کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے جس پر کمیٹی نے ڈیڈ لیول کے نیچے اسپیشل وے نہ بنانے کی سفارش کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو ہدایت کر دی۔

اجلاس میں سینیٹرز نعمان وزیر خٹک، محمد داؤد خان اچکزئی۔ نثار محمد، ڈاکٹر غوث محمد خان نیازی، احمد حسن کے علاوہ جوائنٹ سیکرٹری وزارت آبی ذخائر سید مہر علی شاہ، کمشنر پاکستان کمیشن فار واٹر مرزا آصف بیگ نے شرکت کی۔

تازہ ترین