• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ایک ایسے معاملے پر بھرپور اور دوٹوک اظہار خیال کرکے جو ہمارے معاشرے میں مذہبی اور مسلکی منافرت کے فروغ کا ایک نمایاں سبب ہے، وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے۔ جھل مگسی کے المناک سانحہ پر پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اسلامی ریاست میں جہاد کا اعلان کرنا صرف ریاست کا حق ہے، لوگوں کے کفر اور اسلام کے فیصلے نہ سوشل میڈیا پر ہوسکتے نہ ہر محلے اور مسجد سے جہاد کے فتوے جاری کیے جاسکتے ہیں۔کوئی حب اللہ اور حب رسولؐ کا ٹھیکیدار نہیں جس سے دوسروں کے لیے یہ سرٹیفکیٹ لینا ضروری ہو۔انہوں نے اس امر کی صراحت بھی کی کہ یہ طرز عمل ہمارے دشمنوں کے مقاصد کو پورا کرتا ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے لڑا کر اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں ہیںاور اگر ہم نے باہمی یکجہتی کا راستہ اختیار نہ کیا تو ہماری قومی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے ان رجحانات کی بیخ کنی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اپنی تباہی کے لیے ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوگی لہٰذا ملک کی مذہبی قیادت کو آگے بڑھ کر ان منفی رجحانات کے خاتمے اور درست اسلامی فکر کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔سوشل میڈیا پر جس تازہ مہم جوئی کے تناظر میں جناب احسن اقبال نے یہ اظہار خیال کیا ہے وہ انتخا بی اصلاحات کے بل میں کی گئی ایک حالیہ ترمیم کی منظوری کے عمل کے دوران کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت کے حوالے سے شامل انتخابی امیدواروں کے حلف نامے میں کی گئی تبدیلی کی نشان دہی کے نتیجے میں شروع ہوئی ہے اور اس کے باوجود پوری شدت کے ساتھ جاری ہے کہ اس معاملے کی نشان دہی ہوجانے کے بعد حکومت نے غلطی کو تسلیم کیا اور پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے نئی ترمیم کرکے اصل حلف نامے کو بحال کردیا۔اس کے بعد بھی سوشل میڈیا پر اس مہم کا جاری رہنا اور مختلف شخصیات کے نام لے لے کر انہیں کافر قرار دینا اور ان کے قتل کو عین دینی تقاضا قرار دیا جانایقینی طور پر سخت قابل گرفت ہے۔ جو لوگ یہ مہم چلارہے ہیں وہ اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتے کہ اس کا نتیجہ معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ اور خانہ جنگی کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا جو فی الحقیقت دنیا کی اسلام دشمن طاقتوں کا ایجنڈا ہے لہٰذا یہ عناصر یا تو دانستہ ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کررہے ہیں یا نادانستگی میں ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اس مہم کے جاری رہنے کا دوسرا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ بعض حکومت مخالف طاقتیں اس کے ذریعے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہوں جبکہ قوم کو تقسیم کرنے اور انتشار میں مبتلا کرنے کی یہ روش یقینی طور پر حب الوطنی کے تقاضوں سے متصادم ہے۔لہٰذا وہ عناصر جو سیاسی مفادات کے لیے اس منفی روش پر گام زن ہیں انہیں اپنے طرزعمل کی خود اصلاح کرلینی چاہیے بصورت دیگر قوم کو ان کی حب الوطنی کی حقیقت جان لینی چاہیے۔ انتخابی اصلاحات کا قانون پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کئی ہفتے پہلے منظور کیا جاچکا تھا اور اس وقت ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کی نشاندہی جماعت اسلامی کے سراج الحق، صاحبزادہ طارق اللہ اور جے یو آئی (ف) کے حافظ حمد اللہ کے سوا کسی رکن کی جانب سے نہیں کی گئی تھی ان ارکان کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں جس کی بناء پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کی اکثریت نے بل کا پوری طرح جائزہ لینے میں تساہل برتا۔ امید ہے کہ اس تجربے کے بعد ارکان پارلیمنٹ آئندہ بلوں کی منظوری میں پوری احتیاط اور فرض شناسی سے کام لیں گے۔ ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کے ذمہ دار افراد کا شفاف تحقیقات کے ذریعے تعین اور ان کی غلطی کے بقدر سزا بھی بہرصورت ضروری ہے ، اگر یہ محض دفتری غلطی ہے تب بھی اور اگر یہ کام دانستہ کیا گیا ہے تب بھی ۔ اگر ڈان لیکس کے معاملے میں تحقیقات کا اہتمام اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے تو ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کا معاملہ تو بہرحال اس سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔

تازہ ترین