• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں قومی اسمبلی نے ہنگامی بنیاد پر انتخابی اصلاحات کا بل 2017ء منظور کیا اس میں دانستہ طور پر انتخابی فارم میں ترمیم کی گئی صرف ایک لفظ حلف یعنی اوتھ کو حذف کردیا گیا اور اقرار کا لفظ رہنے دیا گیا ختم نبوت سے متعلق تمام شقیں بھی جوں کی توں رہنے دی گئیں جب بل پیش کیا گیا تو چور کی داڑھی میں تنکا کی مانند وزیر قانون اور ان کے ساتھی وزیر مملکت قانون بھی بار بار یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس میں ہم نے کوئی قابل اعتراض ترمیم نہیں کی جبکہ ان کی ترمیم سے حلف نامہ اقرار نامہ بن گیا تھا شاید حکمرانوں کوخیال تھا کہ اس پر عوام تو عوام خواص بھی کوئی توجہ نہیں دے سکیں گے کیونکہ ان کے خیال میں تو ترمیم ایسی مبہم ،قطعی غیرواضح ہے کہ کسی کی سمجھ میں شاید ہی آئے جبکہ ترمیم کرنے والوں نے یہ ترمیم بہت سوچ سمجھ کر کی تھی انہیں تو دراصل میاں نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر کی حیثیت سے بحال کرنا تھا اس معاملے میں آئین کی جو شقیں رکاوٹ تھیں انہیں تبدیل کرنا تھا اگر وہ صرف آئین میں حسب خواہش حسب منشا تبدیلی کرتے تو حزب اختلاف نے جو شور اب ختم نبوت کے معاملے پر مچایا ہے وہ بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ شور وہ ان ترمیمات پر کرتے لیکن اب جب پارلیمنٹرین اور علما کرام اور عوامی حلقوں کا ہدف ختم نبوت رہا میاں صاحب کی نا اہلی کو اہلیت میں تبدیل کرنے والی کسی بھی شق پر کسی نے کوئی بات نہیں کی ماسوائے قائد حزب اختلاف جناب خورشید شاہ کے ان کی آواز بھی ختم نبوت یا حلف کے نام پر بلند ہونے والی آوازوں میں دب کر رہ گئی حکمرانوں نے بہت سوچے سمجھے طریقے سے عوامی اور خصوصی رد عمل کو ٹھنڈا کرنے اور حزب اختلاف کے غبارے کو پنکچر کرنے کے لئے اس ترمیم میں مزید ترمیم کا بل لا کر معاملے کو بظاہر ٹھنڈا کردیا ہے فی الوقت وہ اپنے اصل مقصد میں کامیاب ہوچکے ہیں میاں صاحب کی اہلیت بحیثیت صدر مسلم لیگ نون بحال ہوچکی ہے انہوں نے اپنی لیگ کی صدارت کا عہدہ جلیلہ اپنا بھی لیا ہے۔
آئینی ترمیم کی ایسی ہیبت ناک غلطی کو اسپیکر قومی اسمبلی نے معمولی یا تکنیکی یا کلیریکل غلطی بتا کر نظر انداز کرنے کی غلط بات کی ہے حالانکہ میاں نواز شریف کو کسی ایرے غیرے نے نا اہل نہیں کیا وطن عزیز کی سب سے بڑی عدالت عدالت عظمیٰ نے انہیں نا اہل قرار دیا ہے وہ بھی تا حیات لیکن میاں صاحب کا بس نہیں چل رہا کہ وہ گھڑی کی چوتھائی میں تمام نظام عدل کو تہس نہس کر کے رکھ دیں وہ بار بارفیصلے کو چیلنج کر رہے ہیں بار بار اس پر انگلی اٹھا رہے ہیں شاید وہ عدلیہ کی برداشت و صبر کا امتحان لے رہے ہیں ۔میاں صاحب کو مسلم لیگ کی صدارت دلانے والوں کو اتنی جلدی تھی کہ حزب اختلاف کی تمام تر مخالفت اور شور و غوغا کے باوجود آئینی ترمیم نہ صرف پیش کی گئی بلکہ اپنی اکثریت کے بل بوتے پر منظور بھی کرائی گئی اور فوری طور پر صدر مملکت نے اس پر دستخط کر کے اسے آئین کا حصہ بنا دیا، ایک اہم مسلمان ملک کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے اس ترمیم سے آئین کی اہم ترین شق جو بنیاد ہے اسلامی نظریاتی مملکت پاکستان کی، ختم نبوت پر بھی کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ اگر مملکت خداداد پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس ختم نبوت کے مسئلے پر علماء کرام علما حق نے کیسی کیسی محنت اور جدوجہد کی ہے وطن عزیز میں پہلا مارشل لا اس ہی مسئلے پر لگایا گیا تھا جو لا محدود مدت کے لئے مخصوص علاقوں میں لگایا گیا تھا پھر دوبارہ مشرقی پاکستان چھن جانے کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت میں اس مسئلے نے زور پکڑا تب ذوالفقار علی بھٹو کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ انہوں نے تمام مسالک اور اقلیتوں کا موقف سنا اور قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا، اس بل کی منظوری میں یقیناً کوئی نہ کوئی ایسی قوت کارفرما رہی ہے جو غیر مسلم قادیانیوں کے مفادات کی محافظ ہے کیونکہ یہ بل پہلے قومی اسمبلی سے پاس ہوا پھر سینیٹ میں پیش ہوا وہاں جماعت اسلامی کے اور دیگر جماعتوں کے اعتراضات کے بعد منظور ہو کر واپس قومی اسمبلی میںپاس ہونے کے لئے پیش ہو۔جماعت اسلامی کے مطابق انہیں یہ یقین دلایا گیا تھا کہ ان کے اعتراضات دور کردئیے گئے ہیں لیکن جب بل منظوری کے لئے قومی اسمبلی میں ہنگامی طور پر پیش ہوا تو وہ جوں کا توں تھا اس میں کسی قابل اعتراض نکتے کو دور نہیں کیا گیا تھا۔حکومت کو خوب اچھی طرح اندازہ تھا کہ حلف نامےکو اقرار نامہ بنانے پر کسی قدر طوفان برپا ہوسکتا ہے لیکن شاید وہ یہی چاہتی تھی تاکہ اصل ترمیم کی طرف زیادہ توجہ مبذول نہ ہوسکے اور میاں صاحب ن لیگ کی مسند صدارت پر براجمان ہوسکیں سو وہ ہوگئے کہنے کو تو میڈیا عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ متنازع بل واپس ہوگیا ہے اور حکومت نے بل واپس لے لیا ہے جبکہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ ترمیم شدہ بل میں مزید ترمیم کی گئی ہے اگر پورا بل ہی واپس ہوا ہوتا تو میاں صاحب پھر ایک بار نا اہل ٹھہرتے جبکہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میاں صاحب اس ترمیمی بل کے زور پر اپنی لیگ کے صدر بن چکے ہیں اس سے ان کو نیا حوصلہ ملا ہے ، اب وہ بلا کسی لحاظ و مروت کے اپنی زبانی کلامی توپوں کو خوب خوب چلا رہے ہیں دراصل ان تمام تر آئینی ترمیمات میں تل اوٹ پہاڑ کی مثال کو مد نظر رکھا گیا ہے اصل معاملے پر اعتراض نہ ہو اور تمام زور ختم نبوت پر رہے اور حکومت ختم نبوت پر پسپائی اختیار کر کے بھی سرخرو ہوجائے۔ میاں صاحب کی صدارت پر کہیں سے کسی نے انگلی نہیں اٹھائی۔ یہ ہوتا ہے کہ ’’پنچوں کا کہا سر آنکھوں پر، پر، پرنالہ وہیں گرے گا‘‘ شایدوطن عزیز کے تمام ہی اہل سیاست کے دلوں سے خوف الٰہی جاتا رہا ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے انہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے اسی دنیا میں اسی زمین پر اسی پارلیمنٹ میں اسی حکمرانی میں اگر ذرا بھی عقل و شعور سے کام لیں تو ماضی پر ایک نظر ڈال لیں تو ان کی اپنی عقل ٹھکانے آجائے گی ماضی قریب میں بھی جس جس طرح کے حالات نے ذلیل و رسوا کیا وہ کم نہیں لیکن جب اللہ کسی قوم کے رہنمائوں کی عقل پر پردے ڈالتا ہے تو پھر سب الٹا بھی سیدھا نظر آتا ہے اللہ تعالیٰ وطن عزیز کے عوام کی حفاظت فرمائے اور نیک و صالح حکمراں نصیب کرے، آمین۔

تازہ ترین