• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم کامیاب ہو گئے ہیں۔ میں نے اس کامیابی کو سمجھنے کی کوشش کی۔ مختلف دہشت گردی سے جڑے ہوئے معاملات کو دیکھا تومجھے لگا کہ واقعی وہ درست رہے ہیں۔ کیونکہ اس وقت میانوالی کے ایک بہت ہی پسماندہ گائوں میں آیا ہوا ہوں۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ پی ٹی وی کے لئے اپنے لکھے ہوئے ڈرامہ سریل ’’نمک ‘‘ کی ریکارڈنگ کے لئے دریائے سندھ کے کنارے آباد ایک گائوں ’’ککڑاں والا‘‘ میں مقیم ہوں اور یہاں پچھلے اٹھارہ گھنٹوں سے بجلی نہیں گئی۔ یعنی لوڈ شیڈنگ کا عفریت کسی حد تک قابو میں آ چکا ہے۔ پاکستان میں پچھلے تین ماہ سے کسی عورت نے اپنے معصوم بچے کے ساتھ خود کشی نہیں کی۔ یعنی غریبوں کے بچے فاقوں کی حالت سے باہر ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سوئچ آن کرنے کی کوشش کی گئی تھی وہ بھی ناکام ہو گئی۔ بلوچستان میں حکومتی عمل داری کوئٹہ سے نکل کر ڈیرہ بگٹی تک پھیل چکی ہے۔ کہیں بھی لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج نہیں ہو رہا۔ روپے کی قدر میں بہتری آ گئی ہے۔ میران شاہ پختونخوا کے دوسرے شہروں کی طرح لگ رہا ہے۔ بازار میں روزمرہ کے استعمال کی تمام چیزیں موجود ہیں۔ آٹے کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا۔ ایک سال میں پانچ مرتبہ بدلنے والی پٹرول کی قیمت اپنی جگہ پر کھڑی ہے۔ ٹماٹروں کے سوا باقی سبزیوں کی قیمتیں نارمل ہیں۔ یعنی عدالت گاہوں میں انصاف شروع ہوچکا ہے۔
شکر ہے کہ یہ سارا کچھ جمہوریت میں ہی ہونا شروع ہو گیا ہے۔ توقع تو بہت ہے کہ جمہوریت کا یہ سلسلہ رواں دواں رہے گا۔ ممکن ہے درمیان میں نگران حکومت کادورانیہ تھوڑا سا بڑھ جائے مگر اُس سےیہ فائدہ ہوگاکہ اسمبلیوں میں پہنچنے والے ساٹھ فیصد کرپٹ عناصر الیکشن ہی نہیں لڑ سکیں گے۔ اسی عرصہ میں دہشت گردی سے جڑی ہوئی کرپشن کا مکمل خاتمہ ہوگا۔
جمہوریت بذات خود بری شے نہیں۔ البتہ اس کا برا استعمال ہی اسے برا بناتا ہے۔ خاص طور پریہ پارلیمانی جمہوریت ہمارے مزاج کے مطابق ہرگز نہیں کہ وہ شخص انتخاب جیت جاتا ہے جس نے بیس پچیس فیصد ووٹ لئے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت چل سکتی ہے اگر متناسب نمائندگی کا طریقہ کار رائج کردیا جائے یا پھر صدارتی نظام کی کوئی صورت سامنے آجائے مگر یہ سب کچھ قانونی طور پر سے ہو۔ عدالت عظمی اس کےلئے راستہ نکال سکتی ہے۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے چہرے پر اتنے نقش و نگار بنائے گئے ہیں کہ عوام اس سے بچوں کو ڈرانے کے سوا اور کوئی کام نہیں لے سکتے۔ یہاں جمہوریت کی آنکھوں میں اتنی مرتبہ سلائیاں پھیری گئی ہیں کہ اب وہاں آنکھوں کی جگہ دو ہولناک غار بن گئے ہیں جہاں اندھیرے پرورش پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ایک مافیا بن گئی جوصرف چند لوگوں کیلئے غیرقانونی طریقے سے مال و دولت جمع کرتی رہی اورجمہوریت کے نام پر چندگروپس میں انتخابی معرکے جاری رہے۔ عوام نےجسے ووٹ دئیے وہ حیرت و پریشانی سے نتائج دیکھتا رہا پھر ڈی چوک پر جاکر دھرنا دے کر بیٹھ گیا مگر ایک سو چھبیس دنوں کا دھرنا بھی ان گروپوں کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ کیونکہ جس طرح جرائم پیشہ لوگوں کے درمیان ایک دوسرے کو قانون سے بچانے کا ایک غیر اعلانیہ معاہدہ ہوتا ہے ان گروپس میں بھی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میںان گروپوںنے اپنے اپنے علاقے تقسیم کئے ہوئے تھے اور قومی یک جہتی کے خوبصورت لیبل لگاکر لوڈشیڈنگ کا زہر بازار حکومت میں فروخت کرتے رہےیا کہیں بے نظیر انکم سپورٹ کی صورت میں غریب بڑھیا سے اس کی دوائی چھین لی گئی۔ کہیں حجاج کی نیکیا ں چرالی گئیں۔ کہیں جعلی ادویات کی فیکٹریوں سے صحتِ عامہ کی تقسیم کی گئی کہیں بجلی کی چوری سے روشنیوں کو فروغ دیا گیاکہیں مافیاکے میٹرک فیل ممبر سے یونیورسٹیوں میں تعلیم کی ترویج کرائی گئی کہیں اچھے لوگوں کی باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ کونسا ایسا اقدام ہے جو اس جمہوری دورمیں اس ملک کی رگ رگ سے خون نچوڑنے کیلئے نہیں کیا گیا۔ انہوں نے تو پتھر بھی نچوڑ کر دیکھے کہ کہیں ان میں بھی کچھ موجود نہ ہو۔ اب انتخابات کا مقامِ سخت و تلخ آگیا ہے۔ ہر گروپ کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ علاقہ اس کی جاگیر میں آئے مگر چونکہ عدالتوں میں انصاف ہونا شروع ہو گیا ہے اس لئے توقع کی جارہی ہے کہ بہت جلد ان گروپوں سے عوام کو نجات مل جائے گی۔ اب ہر علاقے کے جیتنے والے امیدوار کے ہاتھ میں جمہوریت کٹھ پتلی نہیں بنے گی بلکہ وہ سامنے آئیں گے جن میں کچھ کرنے کی اہلیت ہوگی۔ اب یہ نہیں ہو گا کہ گیہوں بیچنے والے یا سبزیوں اور گوشت کے تاجر اسمبلیوں میں قانون سازی کےلئے تشریف لے جائیں۔ بنک لوٹنے والے بنکوں کے سربراہ بن جائیں۔
مجھےجس بات کا خدشہ اپنی تاریخ کودیکھ کر ہوتا ہے وہی خوف پھر میرے دامن سے لپٹ رہا ہے کہ احتساب کے نام پر کہیں جمہوریت کا پھر مکمل طور پر خاتمہ نہ ہوجائے۔ عمران خان بھی اس منظر کی طرف پریشان کن نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور وہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینےوالوں میں سے بھی نہیں ہیں وہ سوچ رہے ہیں کہ اگرجمہوریت کی خاطر مجھے اپنی جان بھی قربان کرنا پڑ گئی تو مجھے اس سےبھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ اسٹیبلشمنٹ کو میرا مشورہ ہےکہ احتساب ہو اُس سے کوئی انکار نہیں مگر آئین کے دائرے سےکسی نے بھی باہر نکلنے کی کوشش کی تو یہ بہت خطرناک قدم ہوگا۔ تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی اور نون لیگ تینوں ایک جگہ کھڑی ہوں گی۔ قوم کسی حالت میں بھی کوئی مارشل لا قبول نہیں کرے گی۔

تازہ ترین