• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 افغانستان میں قیام امن کے لیے مسقط میں ہونے والے اجلاس کی شکل میں افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ پر مشتمل چار ملکی گروپ کی از سرنو کوششوں کا آغاز اگرچہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی وہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں جن کے باعث یہ عمل بار بار تعطل کا شکار ہوتا رہا ہے۔اس عمل کا دوبارہ شروع ہونا اس امرکا ثبوت ہے کہ صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی زمینی حقائق کے مطابق نہیں تھی جس میں ایک طرف افغان مسئلے کے سیاسی حل کو یکسر مسترد کرتے ہوئے صرف طاقت کے بل پر مسئلے سے نمٹنے کے عزائم کا اظہار کیا گیا تھا اور دوسری طرف پاکستان کے مثبت کردار کو تسلیم کرنے کے بجائے مودی سرکار کی بولی بولتے ہوئے اسے خطے میں دہشت گردی کا سرپرست ٹھہرایا گیا اور بھارت کو قطعی غیرضروری طور پر افغانستان کے معاملات میں شریک کرنے کی بات کی گئی تھی۔یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باوجوہ کے دورہ کابل ، وزیر خارجہ خواجہ آصف کے دورہ امریکہ اور پھر نائب امریکی وزیر خارجہ کی قیادت میں ایک امریکی وفد کی پاکستان آمد کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور امن عمل کا دوبارہ آغاز ممکن ہوا ہے۔ طالبان نے مسقط اجلاس میں شریک نہ ہونے کا اعلان کیاہے تاہم اس کا سبب بظاہرماضی کے ناخوشگوار تجربات ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی کوششوں سے شروع ہونے والا مذاکراتی عمل سبوتاژ ہوتا رہا۔ ان میں عین مذاکرات کے موقع پر یا کچھ پہلے کیے جانے والے اقدامات شامل ہیں جن میں ملا عمر کی موت کی خبر کا انکشاف اورحکیم اللہ محسود اور پھر ملا اختر منصور کی ڈرون حملوں میں ہلاکت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ امن عمل کے نئے دور کو کامیاب بنانے کے لیے لازم ہے کہ ایسے اقدامات کو نہ دہرائے جانے کی قابل اعتماد ضمانت مہیا کی جائے تاکہ اس عمل کے لازمی فریق طالبان بھی فریب دہی کے تمام خدشات سے بالاتر ہوکر اس میں شریک ہوسکیں اور یوں افغان مسئلے کا کوئی ایسا سیاسی حل تلاش کیا جاسکے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔

تازہ ترین