• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران عوام کوبیوقوف بنارہے ہیں97ءکاریکارڈکیوں نہیں منگوایاجاتا،دانیال عزیز

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)ن لیگ کے رہنما وفاقی وزیردانیال عزیز نے کہا ہے کہ عمران خان عوام کو بیوقوف بنارہے ہیں کہ تمام جواب دیدیئے ہیں، عدالت نے انوکھی صورتحال بنادی ہے کہ سماعت مکمل کردی لیکن فیصلہ محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی مختصر فیصلہ دیا بلکہ دستاویزات لیے جارہی ہے تاکہ عمران خان کا کیس بہتر ہوتا جائے جو چیزیں ہم مانگ رہے ہیں وہ سڑک پار سے منگوائی نہیں جارہی ہیں، 1997ء کا ریکارڈ کیوں نہیں منگوایا جارہا ہے۔وہ جیو نیوزکے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘میں میزبان سے گفتگوکررہے تھے۔

اس موقع پر سینئر صحافی وتجزیہ کارحامد میر،سینئر صحافی وتجزیہ کارمجیب الرحمن شامی نے بھی پروگرام میں گفتگو میں حصہ لیا۔پروگرا م میں گفتگوکرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ حکومت میں کچھ لوگ شہید بننا چاہتے ہیں ،اگر نظام ختم ہوا تو مسلم لیگ ن کو تو فائدہ ہوگا لیکن ن لیگ کی کچھ بڑی شخصیات کو فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ اپنے خلاف سازش کے بیانیے کو درست ثابت کرناچاہتے ہیں، یہ لوگ اپنا بیانیہ ثابت کرنے کیلئے اداروں کے درمیان محاذ آرائی چاہتے ہیں، اگر میرا تجزیہ غلط ہے تو نواز شریف ان وزراء کو سمجھائیں جو اداروں میں محاذ آرائی بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

پروگرام میں سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور آئی ایس پی آر کی طرف سے مثبت اشاروں کے بعد سول ملٹری تناؤ کی بات نہیں ہونی چاہئے، معیشت کے بارے میں جیسی باتیں کہی گئیں اس کا نقصان پوری قوم کو ہوتا ہے، فریقین کو بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا ہوگا۔قبل ازیں میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں کچھ دنوں سے افواہیں گردش میں ہیں، ہر خاص و عام کے ذہن میں سوال گونج رہا ہے کہ کیا حکومت اپنی مدت پوری کرلے گی یا مارچ سے پہلے حکومت لپیٹ دی جائے گی، ایک بار پھر سے ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کی باتیں ہورہی ہیں، گزشتہ کچھ دنوں میں جو کچھ ہوا اس کے بعد سول و عسکری تعلقات میں تناؤ کے حوالے سے بھی سوال اٹھا، اس حوالے سے سول و عسکری قیادت نے وضاحت کردی ،کیا اب قوم سکون کا سانس لے یا اب بھی کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے، کیا اب افواہیں دم توڑ دیں گی یا معاملہ مزید طول پکڑے گا، وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوج اور حکومت میں کسی سطح پر بال برابر کا فرق نہیں ہے، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی سمجھتے ہیں کہ حکومت ڈی ریل نہیں ہوگی، اسی طرح کی بات ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی کی، انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو فوج سے خطرہ نہیں، آئین اور قانون سے ہٹ کر کچھ نہیں ہوگا۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ کیا ان بیانات کے بعد یہ بحث دم توڑ گئی ہے کہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں یا سوال اب بھی باقی ہے، کیونکہ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، وزیرداخلہ احسن اقبال کے بیانات اور کچھ واقعات نے ان افواہوں کو تقویت دی تھی، تیرہ اکتوبر کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل ٹیکنو کریٹ حکومت نہیں ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ عمران خان خوش ہیں اور اس خوشی میں ٹوئٹس کر کے اپنی سابق بیوی کا شکریہ ادا کررہے ہیں، پاناما کیس میں عمران خان مخالفین سے مسلسل منی ٹریل کا تقاضا کرتے آئے ہیں اور اب کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی منی ٹریل مکمل کردی ہے، عمران خان یہ بات پہلی دفعہ نہیں کہہ رہے بلکہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اپنا تمام ریکارڈ جمع کراچکے ہیں لیکن اس دفعہ کہہ رہے ہیں کہ حتمی ریکارڈ جمع کرادیا ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ عمران خان نااہلی کیس کی سماعت مکمل کرلی گئی تھی مگر فیصلہ محفوظ نہیں کیا گیا تھا، عمران خان کی طرف سے عدالت کی جانب سے دی گئی اس رعایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آج مزید دستاویزات اور نیا جواب جمع کروایا گیا، عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی منی ٹریل سے متعلق تمام اضافی دستاویزات عدالت میں جمع کرادی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے نیازی سروسز لمیٹڈ کے اکاؤنٹ میں موجود ایک لاکھ پاؤنڈ سے متعلق جو جواب جمع کرایا وہ ان کے گزشتہ جواب سے یکسر مختلف ہے جس پر ان کے وکیل عدالت کے سوالات کا جواب دیتے رہے تھے، نئے جواب میں عمران خان کا کہنا ہے کہ نیازی سروسز لمیٹڈ کے ڈائریکٹرز اور شیئرز ہولڈرز نے پہلے بتایا تھا کہ اکاؤنٹ میں موجود ایک لاکھ پاؤنڈ قانونی کارروائی پر خرچ ہوگئے تاہم بعد میں اپیلٹ کورٹ کا فیصلہ ان کے حق میں آگیا جس کے بعد نیازی سروسز لمیٹڈ نے مئی 2014ء میں چالیس ہزار پاؤنڈ ان کے اکاؤنٹ میں جمع کرادیئے، اس رقم کے بارے میں عمران خان اور ان کے ٹیکس کنسلٹنٹ کو یاد نہیں تھا اس لئے آگاہ نہیں کیا گیا، عمران خان کی درخواست میں کہاگیا ہے کہ انہوں نے پہلے جو جواب جمع کرایا وہ غلط مشورے، ریکارڈ کی عدم دستیابی اور عمران خان کی یادداشت پر دیا گیا تھالیکن اب جو جواب جمع کروارہے ہیں وہ ریکارڈملنے کے بعد جمع کروارہے ہیں، نئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نئی دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے، وہ نئے شواہد کی روشنی میں اپنے پہلے جواب میں ترمیم چاہتے ہیں، عمران خان نے اپنے جواب میں 42ہزار 456یوروز کی تفصیلات بھی بتائی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نیازی سروسز لمیٹڈ اور لندن فلیٹس کے کرائے دار کے درمیان سیٹلمنٹ ہونے کے بعد انہیں یہ رقم ملی جو دو قسطوں میں 2007ء اور 2008ء میں منتقل کی گئیں،جب چالیس ہزار پاؤنڈ کی رقم ملی تو عمران خان رکن قومی اسمبلی تھے اس لئے ایف بی آر اور الیکشن کمیشن میں اسے ظاہر کیا گیا تھا تاہم 42ہزار 456یوروز صرف ٹیکس حکام کے سامنے ظاہر کیے گئے کیونکہ اس وقت عمران خان عوامی عہدہ نہیں رکھتے تھے۔

شاہزیب خانزاد نے کہا کہ عمران خان کے مطابق جتنا وہ جانتے ہیں اس کے مطابق نیازی سروسز لمیٹڈ کو 2012ء میں ڈی نوٹیفائی کردیا گیا تھا، یہ اہم بات ہے کیونکہ مقدمہ یہ تھا کہ عمران خان نے جب 2013ء کا الیکشن لڑا تو نیازی سروسز لمیٹڈ ان کے پاس تھی مگر اب عمران خان کہہ رہے ہیں 2012ء میں اس کمپنی کو ڈی نوٹیفائی کردیا گیا تھا لیکن یہ بات ان کے وکیل کے پہلے دیئے گئے دلائل کے برخلاف نظر آتی ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی مشکلات عدالت تک محدود نہیں ہیں، انہیں ایک طرف سپریم کورٹ کو اپنے اثاثوں سے متعلق مطمئن کرنا ہے تو دوسری طرف الیکشن کمیشن میں توہین عدالت اور پارٹی فنڈنگ سے متعلق قانونی جنگ کا بھی سامنا ہے، الیکشن کمیشن نے عمران خان کو چھبیس اکتوبر کو طلب کررکھا ہے، وہ پہلے الیکشن کمیشن نہیں جارہے تھے لیکن آج پی ٹی آئی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ عمران خان چھبیس اکتوبر کوا لیکشن کمیشن میں پیش ہوں گے۔ پروگرام میں بدلتے بیانات کے حوالے سے بھی عمران خان کے بیانات کی ویڈیوز بھی دکھائی گئیں۔

شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا ہے کہ ان کے پاس ایک ایک پائی کا حساب موجود ہے، یہ دعویٰ آج بھی انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کیا، عمران خان کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ خدا کا شکر ہے جمائما نے ریکارڈ سنبھال کر رکھا، آج سپریم کورٹ کی جانب سے طلب کیے گئے اضافی منی ٹریل کا ریکارڈ جمع کرادیا، 6لاکھ 72ہزار پاؤنڈ کا میرا ریکارڈ اب سپریم کورٹ کے پاس ہے جبکہ نواز شریف جعلی قطری خط کے سوا اپنی تین سو ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی کوئی دستاویز جمع نہیں کرواسکے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے اپنی منی ٹریل سے متعلق ایسی ٹوئٹ پہلی بار سامنے نہیں آئی، وہ مختلف مواقع پر مختلف پیشیوں سے پہلے اور بعد یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی منی ٹریل مکمل کردی ہے، اس کے بعد عدالت میں سماعت ہوئی ، پھر کہا، پھر کہا اورا ٓج ایک دفعہ پھر کہا، عمران خان نے نو مئی کو اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ میں نہ صرف لندن فلیٹس کی خرید و فروخت اور رقم واپس پاکستان لانے کی منی ٹریل ثابت کروں گا بلکہ اس کے ساتھ یہ ثبوت بھی دوں گا کہ یونین کونسل سے بنی گالہ کی تعمیر کیلئے پلان کی منظوری لی گئی، لندن فلیٹ اور بنی گالہ کیسز قطری خط جیسا ڈرامہ نہیں ہے۔

انتیس مئی کی ٹوئٹ میں عمران خان نے چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے معاملہ میں سپریم کورٹ تحقیقات کرے یا جے آئی ٹی بنادی جائے نتیجہ ایک ہی نکلے گا، میں نے لندن فلیٹس 1983ء میں کرکٹ کی کمائی سے خریدے اور 2003ء میں اسے فروخت کر کے بینکوں کے ذریعے رقم واپس لایا۔ 23جولائی کی ٹوئٹ میں عمران خان کا کہنا تھا کہ میری منی ٹریل سادہ اور شفاف ہے۔ 24جولائی کی ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ اپنی منی ٹریل کا مکمل ریکارڈ سپریم کورٹ میں دینے کیلئے تیار ہوں، اس ریکارڈ میں سسیکس کاؤنٹی کی طرف سے ملی رقم کی بینکنگ ٹریل، کیری پیکر کی رقم کا بینک ٹریل، لندن فلیٹ کی ادائیگی کا بینکنگ ریکارڈ اور اسپانسر شپ سے ملنے والی کمائی کی منی ٹریل شامل ہے،پھر عمران خان کا کہنا تھا کہ کوئی قانون توڑے بغیر اور عوامی عہدہ نہ رکھنے کے باوجود وہ اپنی چالیس سال پرانی منی ٹریل جمع کروارہے ہیں، پرانی دستاویزات ڈھونڈنے پر عمران خان نے اپنے ٹوئٹس میں سابق اہلیہ جمائما کا اس وقت بھی شکریہ ادا کیا تھا آج ایک دفعہ پھر شکریہ ادا کیا ہے، عمران خان صرف ٹوئٹر نہیں بلکہ جلسوں اور نیوز کانفرنسو ں میں بھی اپنی مکمل منی ٹریل کی موجودگی کے دعوے کرتے آئے ہیں، عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما بھی منی ٹریل کی تلاش میں سرگرم نظر آئیں، انہوں نے پانچ اکتوبر کوا یک ٹوئٹ میں لکھا کہ خوش قسمتی سے وہ ڈی فائلنگ کے سسٹم کی بدولت 2003ء کے اسٹیٹمنٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں، اس سے پہلے انہوں نے یکم جون کو ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ پندرہ سال پرانی بینک اسٹیٹمنٹس تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں، اس کے علاوہ بھی وہ بنی گالہ اور لندن فلیٹ سے متعلق ٹوئٹر پر عمران خان کے موقف کی تائید کرتی نظر آئیں، عمران خان اپنی منی ٹریل پر موجود ہونے والے سوالات کے جواب میں بارہا کہتے رہے ہیں کہ وہ مکمل ہے اور جمع کراچکے ہیں لیکن عدالت میں تصدیق شدہ بینکنگ ٹرانزیکشن کے بجائے مختلف دستاویزات اورا ی میلز کا سہارا لیتے رہے ہیں اور ٹوئٹر پر کہتے رہے ہیں کہ ریکارڈ جمع کرادیا جبکہ عمران خان کے وکیل بھی کئی بار عدالت میں تسلیم کرچکے ہیں کہ کئی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ موجود نہیں ہے، آج عمران خان نے اپنا سب کچھ جمع کرانے کاجواب واپس لے لیا جس سے لگتا ہے کہ معاملہ پہلے اتنے سیدھے نہیں تھے لیکن کیا اب اتنے سیدھے ہیں جتنا عمران خان دعویٰ کررہے ہیں، اعتراض اٹھ رہا ہے کہ عدالت نے سماعت مکمل ہونے کے باوجود فیصلہ محفوظ نہیں کیا اور عمران خان کو ریکارڈ مکمل کرنے کیلئے بار بارموقع دے رہی ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ 2017ء میں پاکستان کرکٹ کیلئے تیسری اچھی خبر سامنے آگئی ہے، پی ایس ایل ٹو فائنل اور ورلڈ الیون کے دورئہ پاکستان کے بعد سری لنکن کرکٹ ٹیم نے بھی ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کیلئے پاکستان آنے کا اعلان کردیا ہے۔ سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ قومی حکومت یا مارشل لاء کا کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا، سول و عسکری اداروں اور شخصیات کے درمیان محاذ آرائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سول عسکری تناؤ کم کرنے پر اتفاق کیا تھا لیکن اس کے بعد احسن اقبال والا واقعہ ہوگیا، ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے اپنی پریس کانفرنس میں احسن اقبال کا ذکر تہذیب کے ساتھ کرنا اچھی بات تھی، احسن اقبال نے بھی بات بڑھانے کے بجائے وضاحت کو قبول کرلیا۔

حامد میر کا کہنا تھا کہ کچھ دن قبل رینجرز اور احسن اقبال کے درمیان ہونے والی ٹینشن کے حوالے سے اگلے چوبیس گھنٹوں میں اہم پیشرفت ہوگی جس سے اداروں کا تصادم نہ چاہنے والوں کو خوشی ہوگی، رینجرز اور احسن اقبال کے درمیان فاصلے کافی کم ہوگئے ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ حکومت کے کچھ وزراء سول ملٹری تناؤ کم کرنے کے بجائے بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں، آج بھی کچھ وزراء نے ایسی باتیں کیں جس کا مقصد اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا تاثر دینا ہے، ان وزراء نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ حکومت بے بس ہے اور کچھ ادارے اس کی بات نہیں مان رہے ہیں، حکومت کے کچھ وزراء جو مریم نواز کے بہت قریب ہیں وہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی پالیسی کو فالو نہیں کررہے ہیں،حکومت کے اندر کچھ عناصر معاملات خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ حکومت میں کچھ لوگ شہید بننا چاہتے ہیں ،اگر نظام ختم ہوا تو مسلم لیگ ن کو تو فائدہ ہوگا لیکن ن لیگ کی کچھ بڑی شخصیات کو فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ اپنے خلاف سازش کے بیانیے کو درست ثابت کرناچاہتے ہیں، یہ لوگ اپنا بیانیہ ثابت کرنے کیلئے اداروں کے درمیان محاذ آرائی چاہتے ہیں، اگر میرا تجزیہ غلط ہے تو نواز شریف ان وزراء کو سمجھائیں جو اداروں میں محاذ آرائی بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔

سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ حکومت اور آئی ایس پی آر کی طرف سے مثبت اشاروں کے بعد سول ملٹری تناؤ کی بات نہیں ہونی چاہئے، فوجی حلقوں کے قریب سمجھے جانے والے سیاسی اور میڈیا کے لوگ اپنی گفتگو سے باز نہیں آتے جس کی وجہ سے بحث دوبارہ شروع ہوجاتی ہے، فوج سے ریٹائر لوگوں کو اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی، آئی ایس پی آر کو بھی ان پر نظر رکھنا ہوگی، میڈیا کے ان عناصر کی پیٹھ تھپکنا بھی بند کرنا ہوگا جنہیں کوئی قانون یا ضابطہ کسی قید میں نہیں لاسکتا، ان کیخلاف جب بھی کارروائی ہوتی ہے پراسرار طریقے سے ان کے راستے کشادہ ہوجاتے ہیں، وہ عناصر جنہیں حساس اداروں کے اثاثے قرار دیا جاتا ہے ان کی زبانوں کو بھی لگام ملنی چاہئے، معیشت کے بارے میں جیسی باتیں کہی گئیں اس کا نقصان پوری قوم کو ہوتا ہے، فریقین کو بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا ہوگا۔

تازہ ترین