• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 افغانستان میں قیام امن کے لئے مسقط میں ہونے والے پاکستان، چین، افغانستان اور امریکہ پر مشتمل چار ملکی حالیہ اجلاس کے بعد پاک امریکہ تعلقات نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ ڈھائی ماہ قبل امریکہ کی طرف سے نئی افغان پالیسی کے اعلان سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ نئی افغان پالیسی میں پاکستان کے کردار کو یکسر نظرانداز کردیا گیا تھا اور بھارت کو افغانستان میں مزید کردار ادا کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی حکام کو نئی افغان پالیسی میں اپنی سنگین غلطی کا جلد ہی احساس ہوگیا ہے۔ تاہم پاکستان کے تعاون سے مسقط میں ہونے والے چار ملکی مذاکرات میں افغان امن عمل کا دوبارہ آغاز ہوگیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ امریکہ کے اس اقدام سے جنوبی ایشیا اور بالخصوص افغانستان پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امریکہ کی نئی افغان پالیسی زمینی حقائق کے مطابق نہیں تھی بلکہ امریکی حکام نے بھارتی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دانستہ طور پر پاکستان کو افغان امن عمل سے دور کیا تھا۔ یہ ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے بھی امریکہ کی نئی افغان پالیسی پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے امریکہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ یہ افغان پالیسی کسی بھی طور امن کا پیغام نہیں لائے گی بلکہ اس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔ پاکستان کی 2500 کلومیٹر طویل سرحد افغانستان سے لگتی ہے۔ برادر ہمسایہ مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو گزشتہ کئی سال سے پناہ دی ہوئی ہے۔ جبکہ ہندوستان کا افغانستان سے براہ راست کوئی زمینی تعلق نہیں ہے۔ انڈیا پاکستان کے راستے ہی افغانستان میں تجارت کو فروغ دے سکتا ہے۔ ماضی میں امریکہ پاکستان پر زور ڈالتا رہا ہے کہ بھارت کو افغانستان کے لئے راہداری دی جائے لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ پہلے انڈیا افغانستان میں اپنے دہشت گردی کے نیٹ ورک ختم کرے اور دیرینہ قضیۂ جموں وکشمیر کو بھی ہندوستان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرے تو پاکستان بھارت کو افغانستان اور وسط ایشیا کی منڈیوں تک رسائی دے سکتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی میں افغانستان کے مسئلے کا صرف فوجی حل پیش کیا تھا۔ حالانکہ افغان مسئلے کو سیاسی انداز میں مذاکرات کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ حکومت پاکستان نے ماضی میں بھی ہمیشہ افغان مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لئے اپنا بھرپور کردار کیا ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد پندرہ سالہ افغان جنگ سے بھی یہ سبق حاصل کیا ہے کہ افغانستان میں فوجی یلغار سے فتح حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اگر واقعی امریکہ افغانستان اور جنوبی ایشیا میں امن کا خواہاں ہے تو اُسے بھارت پر انحصار کم کرنا ہوگا اور پاکستان کو حسب سابق افغان معاملات میں ترجیح دینا ہوگی۔ کیونکہ پاکستان ہی افغان طالبان اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر لاسکتا ہے۔ چند روز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ افغانستان اور افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ دونوں ملکوں میں پائی جانے والی غلط فہمیاں کسی حد تک دور ہوئی ہیں۔ پاکستانی حکام کی افغانستان کی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ اس سے بھارت کی سازشوں کے آگے بند باندھا جاسکے گا۔ پاک امریکہ تعلقات کی خرابی کا باعث بھی بھارت ہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ چین، روس، پاکستان اور وسط ایشیا کی ریاستیں ایک بلاک کی شکل اختیار کر رہی ہیں۔ ایران، سعودی عرب اور ترکی بھی اس بلاک میں شامل ہیں۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کے مصداق اب انڈیا اور روس کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں اور بھارت امریکہ سے مل کر خطے میں اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل چاہتا ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں یہ لکھا تھا کہ امریکہ سی پیک کی مخالفت میں بھارت کا ہمنوا بن چکا ہے۔ سی پیک کے بننے سے خطے میں امریکی بالادستی ختم ہوجائے گی اور بھارت کا توسیع پسندانہ منصوبہ بھی خاک میں مل جائے گا۔ پاک امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے تالی دونوں ہاتھوں سے بجے گی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان امریکہ کی ڈومور پالیسی پر یکطرفہ عمل کرتا رہے اور وہ بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑکے۔ امریکی پالیسی سازوں کو خطے کے وسیع تر مفاد میں اپنی جانبدارانہ سوچ کو بدلنا ہوگا بصورت دیگر امریکہ کبھی افغان جنگ سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر پائے گا۔ افغانستان سنگلاخ پہاڑوں کی ایک ایسی سرزمین ہے جس میں کبھی کسی بیرونی طاقت کو کامیابی نہیں ملی۔ تاریخ گواہ ہے کہ برطانیہ اور سوویت یونین افغانستان کو فتح نہیں کرسکے۔ اب امریکہ افغان جنگ میں بری طرح الجھ چکا ہے۔ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو بچے کھچے امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکلنے میں مدد دے سکتا ہے۔ افغان عمل کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سابقہ غلطیوں کا اعادہ نہ کیا جائے۔ اگرچہ طالبان نے مسقط اجلاس میں شرکت نہیں کی مگر پھر بھی یہ ایک اچھا آغاز ہے۔ اس سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بالآخر برف پگھلے گی اور عنقریب افغان طالبان بھی چار ملکی گروپ کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شریک ہوں گے۔ افغان مسئلے کے لئے ایسا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ نائب امریکی وزیر خارجہ کی قیادت میں وفد کی پاکستان آمد سے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف کے دورہ امریکہ سے کئی سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ اُن کے ریاستی اداروں کے متعلق غیر محتاط بیانات سے سول ملٹری میں تنائو نے جنم لیا ہے۔ ان غیر یقینی حالات میں ملک اداروں میں اختلافات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کو اس وقت چاروں طرف سے خطرات کا سامنا ہے۔ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدیں محفوظ نہیں ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اندرونی سیاسی عدم استحکام کے مسئلے کا بھی ہمیں سامنا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی سول اور عسکری قیادت ایک پیج پر نہیں دکھائی دے رہی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ امریکہ جا کر پاک افغان سرحد پر مشترکہ آپریشن کی بات کرتے ہیں اور آئی ایس پی آر کے ترجمان نے واضح طور پر اس کی نفی کردی ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم خود اپنے علاقوں میں کارروائی کریں گے۔ مشترکہ آپریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ عسکری قیادت کی یہ سوچ بجا طور پر درست ہے کہ ہمیں اپنے علاقوں میں خود ہی آپریشن کرنا چاہئے۔ بڑی مشکل سے ہم نے دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اب ہم دوبارہ پاکستانی علاقوں میں حالات خراب نہیں ہونے دیں گے۔
اب کچھ تذکرہ ہو جائے روزنامہ جنگ کے مذہبی ونگ اور رحمان فائونڈیشن کے اشتراک سے لاہور میں ہونے والے خصوصی سیمینار کا! مجھے بھی اس اہم سیمینار میں مدعو کیا گیا تھا اس تقریب میں مرکزی خطاب رحمان فائونڈیشن کے روح رواں ڈاکٹر وقار احمد کا تھا۔ روزنامہ جنگ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً مختلف سرکاری اداروں اور این جی اوز کے ساتھ مل کر تعلیم، صحت اور عوامی مسائل پر تقاریب کا انعقاد کرتا رہتا ہے۔ جن میں لوگوں کو شعور و آگاہی دی جاتی ہے۔ بہرکیف روزنامہ جنگ کے اشتراک سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے رحمان فائونڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا تھا کہ وہ چودہ سال سے پاکستان میں خدمت خلق کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں رحمان فائونڈیشن کے فری ڈائیلسز سینٹرز لاہور، کراچی، اسلام آباد، جہلم اور فیصل آباد میں کام کر رہے ہیں۔ ان ڈائیلسز سنٹرز پر ہر ماہ ہزاروں مریضوں کے فری ڈائیلسز ہوتے ہیں۔ جن کا ماہانہ خرچ پچیس لاکھ اور سالانہ اخراجات 3کروڑ روپے ہیں۔ اللہ کے فضل وکرم سے 1600گردوں کے مریضوں کے ڈائیلسز بھی کامیابی سے ہوئے ہیں۔ عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو دکھی انسانیت کی خدمت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف کو انسانی خدمت میں مصروف غیر سرکاری تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور ان کے ساتھ بھرپور تعاون بھی کرنا چاہئے۔ نجی سطح پر عوام کی فلاح وبہبود کے ایسے پروجیکٹس کی کامیابی سے حکومت کی نیک نامی ہوگی۔

تازہ ترین