• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالعدم تنظیموں سے روابط کا الزام لاپتہ پولیس کانسٹیبل بازیاب

لاہور (امداد حسین بھٹی سے) کالعدم تنظیموں سے روابط کے الزام میں لاپتہ ہونے والے پولیس کانسٹیبل کو لاہور سبزی منڈی سے بازیاب کروا لیا گیا جس نے پولیس کے سامنے اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروایا کہ اسے کسی خفیہ ادارے نے غائب نہیں کیا بلکہ وہ اپنے گھر والوں کے غیر اسلامی رویے سے تنگ آ کر ازخود روپوش ہو گیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ چیچہ وطنی کا پولیس کانسٹیبل غلام مصطفیٰ ولد محمد شفیع اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے اس کے والدنے اپنی زندگی میں تمام جائیداد اپنے بیٹے کے نام کروا دی اور اس میں کسی بیٹی کو حصہ نہیں دیا۔ جس پر غلام مصطفیٰ نے اپنے والد سے احتجاج کیا کہ اس سے دستخط اس لئے کروائے گئے تھے کہ تمام بہنوں کو ان کا شرعی حق ملے گا لیکن جائیداد صرف اس کے نام کروائی گئی ہے جس پر اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ یہ جائیداد اپنی بہنوں کے نام کروانا چاہتا ہے جس پر بیوی کا اس کے ساتھ جھگڑا شروع ہو گیا اور انہوں نے اسے ذہنی مریض کہنا شروع کر دیا جس پر اس نے گھر والوں سے ناراض ہو کر اپنا تبادلہ لاہور کروا لیا اور لاہور پولیس لائن میں آمد کرواتے ہی از خود روپوش ہو گیااور اپنا حلیہ تبدیل کرتے ہوئے لاہور سبزی منڈی میں ایک آڑھتی کے پاس ایک کم درجے کی نوکری شروع کر دی۔ اس دوران اس نے اپنی داڑھی بڑھا لی اور سبزی منڈی کے پاس موجود مسجد میں امامت بھی کرواتا رہا۔ اس دوران اس کے گھر والوں نے اس کا پتہ کیا تو اس کے تمام موبائل فونز بند تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے گھر والوں نے اس کے سا بقہ رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارا بیٹا مذہبی جنونی تھا اس لئے اسے کسی خفیہ ادارے نے اٹھا لیا ہے۔ لہٰذا اس کے جبری لاپتہ ہونے کا مقدمہ لاہور قلعہ گجر سنگھ میںدرج کر لیا گیا۔ تاہم ازخود روپوش ہونے والے کانسٹیبل کا علم نہیں ہو سکا۔ جس پر اس کے گھر والوں نے لاپتہ افراد کے کمیشن سے رجوع کیا اور موقف اختیار کیا کہ اس کے بیٹے کوخفیہ اداروں کی تحویل سے بازیاب کروایا جائے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ کیس سی آئی اے اغوا برائے تاوان سیل کو سپرد کیا گیا جسے ایک مخبر نے بتایا کہ اس حلیے کا ایک شخص داتا دربار باقاعدگی سے آتا ہے جس پر پولیس نے ریکی کی تو سبزی منڈی تک اس کا پتاچل گیا، جس پر سی آئی اے نے اسے گرفتار کر لیا۔ غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ وہ گھروالوں کے غیر اسلامی رسم و رواج اور رویوں سے تنگ آ کر روپوش ہو گیا تھا۔ اور اس نے ایسی نوکری شروع کی جس میں پسینہ بہا کر کمائی ہوتی ہے۔ کانسٹیبل کے اس بیان پر پولیس نے اسے نوکری سے برخاست کرتے ہوئے اس کے خلاف باقاعدہ محکمانہ کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ اس حوالے سے ڈی ایس پی سی آئی اے طارق کیانی نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ غلام مصطفیٰ کو کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ وہ اپنے گھر والوں کے رویے سے تنگ آ کر روپوش ہوا۔ تاہم سی آئی اے نے اسے بازیاب کروا کے اس کی ازخود روپوشی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ اب اس کے خلاف محکمانہ کارروائی ہو رہی ہے۔
تازہ ترین