• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیک اوور کا مشورہ دینے والے شہباز شریف کی مرضی بھی پوچھ لیں،طلال

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ شہباز شریف کو ٹیک اوور کرنے کا مشورہ دینے والے ایک دفعہ ان کی مرضی بھی پوچھ لیں، 2018ء کا الیکشن نواز شریف کی قیادت میں لڑیں گے اور نظریہ بھی انہی کا ہوگا،جب تک نوازشریف مقبول ہیں ن لیگ میں فارورڈ بلاک نہیں بنے گا،پارٹی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے کو پارٹی سے نکالنے کا موقع آسکتا ہے۔

وہ جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں وفاقی وزیر نجکاری دانیال عزیز،عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات زاہد خان اور سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار احمد اویس بھی شریک تھے۔دانیال عزیز نے کہا کہ پاناما کیس اور جہانگیر ترین و عمران خان نااہلی کیس کا کوئی موازنہ نہیں ہے، نواز شریف الزامات کا دفاع کررہے ہیں جبکہ جہانگیر ترین اور عمران خان الزامات قبول کرچکے ہیں، پاناما پیپرز میں نواز شریف اور اسحاق ڈار کا نام ہی نہیں تھا، یہ بہت بڑی سازش ہوئی ہے جس پر کل پریس کانفرنس کروں گا۔احمد اویس نے کہا کہ پاناما کیس میں بھی آرٹیکل 62/1Fکے اطلاق سے پہلے مکمل احتیاط اور باریک بینی سے کام کیا گیا۔

زاہد خان نے کہا کہ نواز شریف کیخلاف کیسز سیاسی ہیں، آرٹیکل 62/1F کے اطلاق میں سب کیلئے ایک پیمانہ ہونا چاہئے۔وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نےکہا کہ صرف ن لیگ ہی نہیں تمام سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے ہوتا ہے،سیاسی جماعتوں میں تیسری سوچ بھی پائی جاتی ہے، تیسری سوچ کے حامل لوگ ہمیشہ اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں، ن لیگ میں اس نظریے کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے، ہر شخص کو اتنا مشورہ دینا چاہئے جتنا اس کا مسلم لیگ ن سے تعلق ہے، جنہیں مسلم لیگ ن کی وجہ سے عہدے ملے انہیں ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے، نواز شریف کو مشورہ وہ دیں جنہوں نے ان کے ساتھ قید و بند کی سختیاں اور جلاوطنی کاٹی، سینئر ن لیگی رہنماتو اختلاف رائے کرسکتے ہیں مگر مجھ جیسے بہت سے لوگوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے، ہمیں قیادت کو اتنا ہی مشورہ دینا چاہئے جتنا ہمارا حق بنتا ہے، بلاوجہ مشورہ دینے سے لگتا ہے وہ کسی خواہش کی عکاسی کررہے ہیں۔

طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ پارٹی میں لوگ نواز شریف سے اختلاف رائے ضرور کرتے ہیں مگر علیحدہ نہیں ہوسکتے، شہباز شریف کو ٹیک اوور کرنے کا مشورہ دینے والے ایک دفعہ ان کی مرضی بھی پوچھ لیں، شہباز شریف ہمیشہ نواز شریف کے پیچھے چلتے آئے ہیں، شہباز شریف سمیت سینئر ن لیگی قیادت کو کسی دوسرے کی زبان کی ضرورت نہیں یہ خود بات کرسکتے ہیں، ہمارا ایک لیڈر اور ایک منزل ہے، پارٹی میں اختلاف رائے ضرور ہے لیکن نواز شریف کی قیادت پر سب متفق ہیں، 2018ء کا الیکشن نواز شریف کی قیادت میں لڑیں گے اور نظریہ بھی انہی کا ہوگا۔ طلال چوہدری نے کہا کہ جب تک نوازشریف مقبول ہیں ن لیگ میں فارورڈ بلاک نہیں بنے گا، لوٹا کریسی کی سیاست کو لوگ پسند نہیں کرتے ہیں، کچھ لوگ اقتدار کے تو کچھ زندگی اور نظریے کے ساتھی ہوتے ہیں، ن لیگ میں ضرورت کے مطابق فیصلے ہوتے رہتے ہیں، پارٹی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے کو پارٹی سے نکالنے کا موقع آسکتا ہے، مشورہ دینا سب کا حق ہے اور سب کو مشورہ دینا چاہئے لیکن جب کوئی فیصلہ ہوجائے تو قیادت کے پیچھے کھڑے ہونا چاہئے، اگر کوئی قیادت کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا پارٹی اس کیخلاف ایکشن لے گی۔

دانیال عزیز نے کہا کہ ن لیگ نے جے آئی ٹی رپورٹ کی دسویں جلد بند رکھنے کیلئے نہیں کہا، ہم نے پہلے سپریم کورٹ اور اب نیب عدالت میں بھی دسویں جلد کھولنے کی درخواست کی ہے، پاناما کیس اور جہانگیر ترین و عمران خان نااہلی کیس کا کوئی موازنہ نہیں ہے، نواز شریف اپنے خلاف الزامات کا دفاع کررہے ہیں جبکہ جہانگیر ترین اور عمران خان الزامات قبول کرچکے ہیں، 2018ء سے آگے مرحلوں کیلئے ایک گملا بنایا گیا تھا، عمران خان اور جہانگیر ترین نااہل ہوگئے تو سارا مقصد فوت ہوجائے گا اس لئے اب 62/1Fکی تشریح دیکھی جارہی ہے۔ دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین اور عمران خان کیس میں جے آئی ٹی کی ضرورت نہیں ہے، دونوں کے اعترافی بیانات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں، عمران خان کے وکیل انور منصور نے اعتراف کیا ہے کہ غیرملکی فنڈنگ ہوئی ہے،پاناما پیپرز میں نواز شریف اور اسحاق ڈار کا نام ہی نہیں تھا، یہ بہت بڑی سازش ہوئی ہے جس پر پریس کانفرنس کروں گا، پاناما پیپرز میں شامل تمام لوگوں کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔

دانیال عزیز نے کہا کہ ایس ای سی پی سے جہانگیر ترین کی تحقیقاتی رپورٹ اور الیکشن کمیشن سے عمران خان کے 1997ء کے پانچ حلقوں کے کاغذات نامزدگی نہیں منگوائے جارہے ہیں، عمران خان جوا کھیل کر اپنی جماعت چلاتا تھا 2010ء میں اچانک ملین آف ڈالرز کہاں سے آگئے، عمران خان کے کیس کا فیصلہ ہوناچاہئے اور ہمارے ساتھ انصاف ہونا چاہئے۔زاہد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے آرٹیکل 62/1Fکی تشریح کی ضرورت کے ریمارکس کے بعد معاملہ نیا رخ اختیار کرگیا ہے، سراج الحق نے این اے فور میں جلسہ پر پابندی کی وجہ سے وہاں ختم نبوت کے نام پر جلسہ کر کے منافقت کی، نواز شریف کیخلاف کیسز سیاسی ہیں، سیاسی کیسوں کو عدالت میں نہیں لے کر جانا چاہئے، سیاسی معاملات پر پارلیمنٹ میں بات ہونی چاہئے،کل آرٹیکل 62/1Fکی تشریح مختلف ہوگئی تو عدالتوں کی کیا ساکھ رہ جائے گی۔

زاہد خان نے کہا کہ آرٹیکل 62/1F کے اطلاق میں سب کیلئے ایک پیمانہ ہونا چاہئے، کرپشن کے خلاف بلاتفریق احتساب ہونا چاہئے، اگر کوئی اپنے اثاثے ظاہر نہیں کرتا تو وہ صادق اور امین نہیں ہے۔احمد اویس نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد عدالت غلط ڈیکلریشن پر کسی کے خلاف فیصلہ دیدے تو وہ آرٹیکل 62/1Fکے زمرے میں آجاتا ہے، پاناما کیس میں بھی آرٹیکل 62/1Fکے اطلاق سے پہلے مکمل احتیاط اور باریک بینی سے کام کیا گیا، نواز شریف کے وکلاء جے آئی ٹی رپورٹ کی دسویں جلد کو بند رکھنے کیلئے کہا، پاناما کیس میں نواز شریف کے وکلاء سے ایک غلطی ہوئی ہے، سپریم کورٹ کے پہلے فیصلے میں جب دو ججوں نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا تو انہیں نظرثانی کی اپیل کرنی چاہئے تھی جہاں آرٹیکل 62/1F پر بات ہوتی۔

احمد اویس کا کہنا تھا کہ عدالت جہانگیر ترین کیس میں ابھی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچی ہے، نواز شریف کا کیس سپریم کورٹ میں اٹھانے کی بہت مضبوط وجوہات موجود تھیں۔میزبان طلعت حسین نے پروگرام میں اہم نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں میٹرو بس منصوبوں پر تنقید کرنے والی پی ٹی آئی پشاور میں میٹرو بس کیوں بنارہی ہے، پشاور میں 48ارب روپے کی لاگت سے چھبیس کلومیٹرطویل میٹرو بس منصوبہ بنایا جارہا ہے، اس کی لاگت 1.84ارب روپے فی کلومیٹر ہے، لاہور میٹرو بس سسٹم 27کلومیٹر طویل ہے اس پر لاگت 29.8 ارب روپے آئی جو کہ 1.1 ارب روپے فی کلومیٹر پڑتاہے، 44.8ارب روپے لاگت سے بننے والا اسلام آباد میٹرو بس سسٹم 23کلومیٹر طویل ہے اور اس کی فی کلومیٹر لاگت 1.94ارب روپے ہے۔

تازہ ترین