• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد (عمر چیمہ) اگرچہ وہ پاناما پیپرز کی تحقیقات کا حصہ تھیں لیکن ہماری کبھی ملاقات نہیں ہو پائی جس کا مجھے ملال ہے۔ کرپشن کیخلاف ان کی جنگ نے مالٹا میں حکومت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور پوری دنیا کو پیغام ملا تھا۔ ان کا حوصلہ کئی صحافیوں کیلئے مثال بن گیا تھا۔ اس خاتون ڈیفنی کاروانا گالیزیا کو ’’ون وومن ویکی لیکس‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ گزشتہ پیر کو، انہوں نے وسیع پیمانے پر پڑھے جانے والے اپنے بلاگ میں ایک چبھتا ہوا آرٹیکل شائع کیا تھا جس کے آخر میں لکھا تھا کہ ’’آج آپ جہاں نظر دوڑائیں گے وہاں آپ کو بد دیانت افراد نظر آئیں گے۔ صورتحال مایوس کن ہے۔‘‘ آدھے گھنٹے بعد ہی ڈیفنی کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا گیا۔ جس گاڑی میں وہ سفر کر رہی تھیں وہ دھماکے کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اگر اس واقعے کو بہیمانہ قتل کہا جائے تو یہ کم بیانی ہوگی۔ 52سالہ اس خاتون صحافی کے بیٹے میتھیو کاروانا نے لکھا ہے کہ ’’المناک بات یہ ہے کہ کوئی بس کسی شخص پر چڑھ جائے۔ جب آپ کے ارد گرد آگ اور خون ہو تو یہ جنگ کہلائی جاتی ہے۔‘‘ میتھیو انٹرنیشنل کنسورشیم آف جرنلسٹس کے اسٹاف ممبر ہیں۔ یہ وہی تنظیم ہے جس نے پاناما پیپرز جاری کیے تھے جو سب سے پہلے جرمن اخبار سودوچ زائیتونگ کو جاری کیے گئے تھے۔ ڈیفنی کا قتل دنیا بھر کے صحافیوں کیلئے خوفناک یاد دہانی ہے۔ 2017 میں قتل کی جانے والی وہ 10ویں صحافی ہیں۔ لیکن یہاں ایک اور یاد دہانی بھی موجود ہے: ہم مختلف دنیائوں میں رہتے ہیں لیکن ہمیں یکساں چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستانی صحافی بھی اس طرح کی دھمکیوں سے لاعلم نہیں۔ گزشتہ جمعرات کو سوابی میں وقت ٹی وی کے نمائندے ہارون خان کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا اور اس طرح وہ ان شہید صحافیوں مین شامل ہوگئے جن کے قتل کا معمہ غالباً حل نہیں ہو پائے گا۔ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کچھ صحافی، شاہنواز طارق زئی اور اسلام گل آفریدی کو اتوار کے روز اغوا کر لیا گیا تھا لیکن وہ خوش قسمت تھے اسلئے انہیں رہا کر دیا گیا۔ ہراساں کیے جانے کا عمل صرف دور دراز کے علاقوں تک محدود نہیں۔موجودہ صورتحال میں جاری کوششوں کے نقاد صحافیوں کو ادارے سے نکالنے کیلئے میڈیا ہائوسز پر شدید دبائو ہے اور جو اس دبائو میں نہیں آتے ان کیخلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی جاتی ہے اور انہیں بدنام کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میڈیا ہائوسز کی نشریات کیبل ٹی وی پر بند کرکے انہیں معاشی طور پر سزا دینے کا طریقہ بھی موجود ہے۔ صحافت تیزی سے ایک پرخطر پیشہ بن گیا ہے۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ملک ہو جہاں اس پیشے کیلئے فرائض کی ادائیگی پر امن انداز سے ممکن رہی ہو۔ یورپ میں ڈیفنی دوسری صحافی ہیں جنہیں خاموش کر دیا گیا۔ ان سے قبل اگست میں سوئیڈن کی صحافی کم وال اس وقت پر اسرار حالات میں مردہ پائی گئیں جب وہ ڈنمارک کے ایک موجد سے ان کی آبدوز پر انٹرویو لینے گئیں۔ اسی موجد پر ان کے قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔ جان لیوا حملوں کے علاوہ، حب الوطنی پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں ہم اس طرح کے حملوں کے عادی ہو چکے ہیں لیکن صورتحال ان ترقی یافتہ ممالک میں بھی بدتر ہوتی جا رہی ہے جہاں فیصلوں کا اختیار فتنہ انگیز افراد کے پاس ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اکثر امریکی صحافیوں پر غیر محب وطن ہونے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں اور اپنے حامیوں سے بھرے اجتماعات میں ان پر فقرے کستے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے این بی سی ٹی وی کو نشریاتی لائسنس منسوخ کرنے کی دھمکی دی۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور سی این این ان کے محبوب اہداف ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کی سابق امیدوار برائے نائب صدر سارہ پیلن مرکزی دھارے میں شامل میڈیا ’’مین اسٹریم میڈیا‘‘ کو لنگڑا میڈیا ’’لیم اسٹریم میڈیا‘‘ کہہ چکی ہیں۔ برطانیہ میں بھی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں صحافیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ جہاں تک ڈیفنی کا تعلق ہے تو انہوں نے بنیاد ڈالنے کا کام کیا، ان کا سب سے مقبول کام پاناما پیپرز کی تحقیقات ہے۔ ان کے بین الاقوامی اجرا سے قبل، انہوں نے طاقتور وزیر اور چیف آف اسٹاف کے حوالے سے ان کی آف شور سرمایہ کاری کے اشارے دیئے جس سے یہ لوگ اگلے 48 گھنٹوں میں سب قبول کرنے کو آمادہ ہوگئے۔ رواں سال کے اوائل میں، ڈیفنی نے وزیراعظم جوزف مسکاٹ کی اہلیہ کی پاناما میں قائم کمپنی کا انکشاف کیا جس سے سیاسی بحران پیدا ہوا اور قبل از وقت الیکشن کا اعلان کرنا پڑا جو ایک مرتبہ پھر حکمران جماعت نے جیت لیے۔ ڈیفنی کے جرأتمندانہ کام کے اعتراف میں امریکا کے پولیٹیکو اخبار نے ڈیفنی کو ان 28 افراد کی فہرست میں شامل کیا جو یورپ کو جھنجھوڑ کر اور ہلا کر اس کی از سر نو تشکیل کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈیفنی کو مالٹا میں غیر شفاف رویوں اور کرپشن کیخلاف جہاد کرنے والی ’’ون وومن ویکی لیکس‘‘ قرار دیا۔ انہیں بیک وقت قابل احترام اور قابل مذمت سمجھا جاتا تھا۔ یورپی کمیشن کے سابق رکن جان ڈالی نے انہیں دہشت گرد قرار دیا تھا۔ ڈیفنی نے تمباکو کے اسکینڈل کو منظر عام پر لانے کیلئے ان کی مدد کی تھی۔ مالٹا میں اپوزیشن جماعتیں انہیں قدرت کی ایک ایسی سیاسی قوت سمجھتے تھے جس نے تنہا حکومت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ انہوں نے جس طرح کے الزامات کا سامنا کیا اور جس طرح کی پذیرائی انہیں ملی؛ اس کا تجربہ پوری دنیا کے صحافیوں کو ہے۔ انہوں نے اتنے دشمن بنا لیے تھے کہ حکومت کو اب ہزیمت کا سامنا ہے کہ ان کے قتل کی تحقیقات کون کرے گا۔ جس مجسٹریٹ کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ڈیفنی نے ان کیخلاف کئی آرٹیکل لکھے تھے۔ فیس بک پر ایک پولیس افسر نے ان کے قتل پر جشن منایا جسے حکومت نے بعد میں معطل کر دیا، صورتحال ایسی ہے کہ اب وزیراعظم جوزف مسکاٹ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں جنہوں نے اب امریکی ایف بی آئی سے اس قتل کی تحقیقات کرانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ڈیفنی کے کام اور ان کی زندگی سے صحافیوں کو سبق ملتا ہے: اپنا کام محنت سے کریں لیکن کسی طرح کی تنقید کی پروا نہ کریں۔ نقاد آپ کو بدنام کریں گے، ساکھ خراب کریں گے تاکہ وہ اپنی گندے کام چھپا سکیں۔ ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے، صرف پاکستان تک یہ بات محدود نہیں۔ انہیں عظیم خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ہمیں عوامی رضا کار بننا پڑے گا۔ مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے کیلئے اس قتل کی تحقیقات کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔ ان کے قتل کا معمہ سلجھانے کیلئے دنیا بھر کے صحافیوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ صحافی عوام کے متبادل ہوتے ہیں جو معاشرے کی بہتری کیلئے کام کرتے ہیں۔ ڈیفنی کے غمگین بیٹے نے بالکل درست بات کہی ہے: ریاست کے ادارے ناکارہ ہوجائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ آخری شخص ہمیشہ صحافی ہی ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ کی توثیق یورپی کمیشن کے پہلے نائب صدر فرانز نے ان الفاظ میں کی ہے: اگر صحافیوں کو خاموش کردیا گیا تو ہماری آزادی کھو جائے گی۔
تازہ ترین