• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن بادی النظر میں دو اہم مقاصد کے تحت اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر واشنگٹن سے نکلے ہیں۔ وہ سعودی عرب سے ہوتے ہوئے آج اسلام آباد پہنچیں گے۔ ان کے دورے کا پہلا مقصد ایران کے خلاف خلیجی ممالک کو متحد کرنا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے ریاض میںسعودی عرب عراق مشترکہ رابطہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اور سعودی شاہ سلمان اور عراقی وزیراعظم حیدر العبادی سے کہا کہ وہ دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنائیں تاکہ خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے فوجی اثر و رسوخ کا تدارک کیا جا سکے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ عراق سے ایرانی ملیشیا کے گروہ نکل جائیں۔ سعودی عرب اور عراق کے تعلقات طویل عرصہ سے تنائو کے شکار تھے۔ انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کی امریکی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں اور عراقی وزیر اعظم نے شاہ سلیمان سے ملاقات کے بعد اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ عراق ماضی کو پیچھے چھوڑ کر دونوں ملکوں میں تعلقات کی بحالی کے لیے آگے بڑھنا چاہتاہے جبکہ شاہ سلمان نے بھی عراق کو تعاون کا یقین دلایا ہے۔ تاہم امریکی وزیر خارجہ سعودی عرب اور قطر میں اختلافات ختم کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے دوحہ پہنچ کر امیر قطر سے ملاقات کی اور انسداد دہشت گردی اور عرب ممالک کے ساتھ قطر کے سفارتی بحران پر تبادلہ خیال کیا لیکن تعلقات کی بحالی کے لیے مذاکرات پر سعودی عرب آمادہ ہوا نہ قطر۔ سعودی عرب، بحرین، عرب امارات اور مصر نے قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کر رکھے ہیں۔ قطر پر ایران نوازی اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام ہے جسے امریکہ نے ہی زیادہ ہوا دی ہے اور اس کا مقصد اسلامی ممالک میں شیعہ سنی فقہی اختلافات کو ابھار کر ان میں دوریاں پیدا کرنا ہے اس تضاد کو صدر ٹرمپ نے اس وقت بڑھایا جب سعودی عرب کے دورے کے دوران انہوں نے عرب ملکوں پر ایران اور اس کے حلیفوں کے خلاف رویہ سخت کرنے کے لیے کہا عرب ملکوں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر کبھی اتنی کشمکش دیکھنے میں نہیں آئی جتنی بیرونی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے اس وقت ہے اور ان طاقتوں کا مقصد اسلامی ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب نہ ہونے دینا ہے عراق، شام، لیبیا اور یمن میں خانہ جنگی اور تباہی انہی کوششوں کا شاخسانہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے دورے کا دوسرا مقصد افغانستان کے حوالے سے پا کستان پر دبائو ڈالنا ہے۔ وہ آج جب اسلام آباد پہنچیں گے تو پاکستانی رہنمائوں سے ان کی گفتگو کا مرکز افغانستان ہوگا جو پہلے روس اور پھر امریکہ کی مستقل مداخلت کے باعث جہنم زار بن چکا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق مسٹر ٹلرسن پا کستان پر عسکریت پسندوں کے خلاف سخت کریک ڈائون کے لیے دبائو ڈالیں گے جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاک فوج نے بے مثال قربانیاں دے کر دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا ہے اور اب پاکستان میں ان کا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں البتہ افغانستان میں پاکستانی طالبان کی پناہ گاہیں ضرور موجود ہیں جو امریکہ اور نیٹو افواج کی ناک کے نیچے سے گزر کر پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں اسی بنا پر پاکستان امریکہ کے ’’ڈو مور‘‘ مطالبے کا ’’نو مور‘‘ کے دو ٹوک جواب سے دینے کا تہیہ کر چکا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ بھارت کے حوالے سے امریکی پالیسی پر پاکستان کے خدشات بھی دور کریں گے جو اس وقت تک ایک سعی لاحاصل ہو گی جب تک امریکہ بھارت کو پاکستان کے خلاف افغان سر زمین دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے سے نہیں روکتا۔ امریکی وزیر خارجہ ایسے وقت پر مشرق وسطیٰ اور پاک و ہند کا دورہ کر رہے ہیں جب یہ پورا خطہ دہشت گردی انتہا پسندی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے نہایت مثبت کردار ادا کیا ہے موجودہ صورت حال کے تناظر میںاسلامی ممالک کو چاہیئے کہ ان قوتوں سے خبردار رہیں جو انہیں کسی نہ کسی بہانے آپس میں لڑانے میں مصروف رہتی ہیںا ور باہمی مسائل بات چیت کے ذریعے حل کریں۔

تازہ ترین