• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو بھی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی نہیں مانتا اور قطعی اور غیر مشروط ایمان نہیں رکھتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ایسا شخص مسلمان نہیں اس کے علاوہ سب کچھ ہوسکتا ہے کسی انسان کے مسلم یا مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل یقین و اعتماد کے ساتھ ایمان لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی طرح کسی اور کو نا نبی یا پیغمبر یا کسی طرح وحی الٰہی کے نزول پر یقین رکھے جو شخص بھی کسی بھی طرح کسی بھی قسم کے نبی ہونے کا دعویٰ یا جو کوئی بھی ایسے مدعی کو کسی بھی طرح نبی یا دینی مصلح تسلیم کرے وہ آئین و قانون کی رو سے مسلمان نہیں۔
مرزا غلام احمد (یعنی احمد کا غلام، احمد اور محمد یہ دونوں ہی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک ہیں اس نے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کی سرکشی کی ہے حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی بھی لاج نہیں رکھی پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس کی جماعت کو جماعت احمدیہ کہا جائے) کے ماننے والوں کو قادیانی اس لیے کہا جاتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیان جو بھارت کے ضلع گورداسپور، مشرقی پنجاب میں ہے یہ وہاں کا پیدائشی ہے اس لیے انہیں قادیانی کہا جاتا ہے ہندوستان پر قابو رکھنے اور اپنا قبضہ مضبوط رکھنے کے لیے انگریز نے مختلف ہتھکنڈے آزمائے انگریز کو ہر دم خطرہ رہتا تھا کہ مسلمان متحد رہے تو یہ پھر کہیں پہلے کی طرح بغاوت نہ کرسکیں، اس لیے وہ مسلمانوں کو منتشر کرنے کی مختلف سازشیں کرتا رہتا تھا ان ہی سازشوں میں سے ایک سازش یہ تھی مرزا غلام احمد قادیانی نے بتدریج مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت میں نقب لگانی شروع کی شروع میں مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے اس نے عیسائیوں، ستاتن دھرم، آریہ سماج کے خلاف اپنی مہم جوئی کا آغاز ایک مناظر کی حیثیت سے کیا، اس طرح یہ شخص اپنی ہوشیاری سے مسلمانوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا جب اس کو مسلمانوں کی توجہ مل گئی تو اس نے گرگٹ کی طرح رنگ پہ رنگ بدلنا شروع کردیا سب سے پہلے اس نے الہامات کا دعویٰ کرنا شروع کیا، اس سلسلے میں اس نے ’’براہین احمدیہ‘‘ کی ابتدائی چار جلدیں جو اس نے 1880 سے 1884ء کے عرصے میں تحریر کیں ان میں مرزا غلام احمد نے خود کو مجدد، مہدی مدعود، مسیح موعود اور ظلی و بروزی بنی ہونے کے دعوے یکے بعد دیگرے کیے اس کے انتقال کے بعداس کے جانشین کا جھگڑا پڑا اس کے جانشین کے طور پر مولوی محمد علی جو غلام احمد کا دست راست تھا خود اس کو جانشین سمجھتا تھا لیکن اس کے بجائے جماعت نے اپنا خلیفہ حکیم نورالدین کو بنا دیا حکیم نور الدین کے بعد بھی مولوی محمد علی کو خلافت نہیں مل سکی اس بار مرزا غلام احمد کا بیٹا مرزا محمود گدی نشین ہوگیا تب مولوی محمد علی نے اپنی الگ جماعت یا گروپ اپنے حامیوں سے مل کر بنا لیا جسے بعد میں لاہوری گروپ کے نام سے جانا جانے لگا، مرزا غلام احمد کا بیٹا جب خلیفہ بنا تو اس نے اپنے باپ کے متعلق بہت سے ایسے دعویٰ کیے جو اس سے پہلے کہیں سامنے نہیں آئے تھے اس نے یہ اعلان بھی کیا کہ جو مسلمان حضرت مسیح موعود سے بیت نہیں وہ سب کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اس نے اپنی قادیانی جماعت کو یہ بھی حکم دیا کہ کوئی احمدی کسی غیر احمدی کو اپنی لڑکی نہیں دے گا اور یہ بھی اعلان کیا کسی بھی قادیانی کو غیر قادیانی (مسلمان) کا جنازہ پڑھنا چاہے وہ معصوم بچہ ہی کیوں نہ ہو جائز نہیں نہ جنازے میں شرکت کرنا درست ہے۔
کہنے کو تو مسلمانوں اور قادیانیوں میں صرف ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلے پر اختلاف ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے بہت سے معاملات و مسائل ہیں وہ مسلمانوں سے بالکل الگ اور مختلف ہیں بعض علماء کرام کی رائے میں تو احمدی یا جماعت احمدیہ کہنا بھی درست نہیں کیونکہ ’’احمد‘‘ تو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام ہے اس لحاظ سے تو خود مسلمان ہی احمدی اور محمدی ہوتے ہیں مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو تو قادیانی ہی کہنا کہلانا چاہئے۔
7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کے حکمران جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ایما پر آئین پاکستان کی بعض دفعات میں ترمیم کی گئی جس سے قادیانیوں کے دونوں گروپ ربوہ کو مرکز ماننے والے اور لاہوری گروپ کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا کیونکہ علما حق جن کے سرخیل حضرت مولانا مفتی محمود اور حضرت مولانا شاہ احمد نورانی تھے کی کوششوں سے یہ ترمیمات کی گئی شعائر اسلام کے مطابق جو شخص بھی کسی بھی طرح نبی ہونے کا دعویٰ کرے اسے ماننا یا اسے مجدد ماننے والا ہر شخص دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اور غیر مسلم اقلیت بن جاتا ہے، آئین کی دفعہ 260 کی شق نمبر 2 کے بعد اس میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا گیا جو اس دفعہ کے مفہوم کو واضح کرتی ہے۔
جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیوں کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔ متشرع سفید داڑھی، قرآن کی آیتیں بھی پڑھ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف بھی پڑھتے۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسے میں ارکان اسمبلی کے ذہنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ماہ نامہ ’’الحق اکوڑہ خٹک‘‘ کے شمارہ جنوری 1975 کے صفحہ نمبر 41 پر بیان فرماتے ہیں۔
’’یہ مسئلہ بہت بڑا اور مشکل تھا‘‘
اللہ کی شان کہ پورے ایوان کی طرف سے مفتی محمود صاحب کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور مفتی صاحب نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ حوالے نوٹ کئے۔ سوالات ترتیب دیئے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ مرزا طاہر قادیانی کے طویل بیان کے بعد جرح کا جب آغاز ہوا تو اسی ’’الحق رسالے‘‘ میں مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں کہ
’’ہمارا کام پہلے ہی دن بن گیا‘‘
اب سوالات مفتی صاحب کی طرف سے اور جوابات مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔
سوال۔مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔وہ امتی نبی تھے۔امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کر لے۔
سوال۔اس پر وحی آتی تھی؟
جواب۔آتی تھی۔
سوال۔ (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟
جواب۔بالکل نہیں۔
سوال۔مرزا قادیانی نے لکھا ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا‘‘ خواہ اس کو میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے، پکا کافر۔ دائرہ اسلام سے خارج ہے اس عبارت سے تو ستر کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟
جواب۔ کافر تو ہیں لیکن چھوٹے کافر ہیں‘‘جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں ’’کفردون کفر‘‘ کی روایت درج کی ہے۔
سوال۔آگے مرزا نے لکھا ہے۔پکا کافر؟
جواب۔اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال۔آگے لکھا ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے حالانکہ چھوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟
جواب۔دراصل دائرہ اسلام کی کئی کیٹیگریاں ہیں اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض سے نہیں نکلا ہے۔(جاری ہے)

تازہ ترین