• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوازشریف خودپارٹی قیادت میں تبدیلی کرتے ہیں توقابل قبول ہوگا،راناافضل

کراچی(ٹی وی رپورٹ) مسلم لیگ ن کے رہنما رانا افضل نے کہا کہ ہم نے ابھی پارٹی الیکشن کیا جس کو الیکشن کمیشن نے نوٹیفائی بھی کیا ، اور الیکشن3سال کیلئے ہوا،اس کے بعد ایک دم سے کچھ افراد کو یہ اعتراضات ہورہے ہیں،پارٹی کے صدر کیلئے تویہ فیصلہ پارٹی کی اکثریت نے لینا ہے اور ان کے اندر ابھی ایسی کوئی سوچ نہیں ہے۔ سرکاری عہدہ ہونے کی وجہ سے نواز شریف پارٹی کو وقت نہیں دے پاتے تھے لیکن اب جب ان کی دیگر ذمہ داریاں ختم ہو گئیں اور وہ جماعت کو زیادہ توجہ اور وقت دے سکتے ہیں تو اس سے پارٹی مزید مضبوط ہوگی جس سے جماعت کی تنظیمیں بھی ہر شہر میں زیادہ مضبوط ہوں گی ،اگر نواز شریف خود یہ فیصلہ کریں کہ وہ پارٹی میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو وہ بھی پارٹی رہنماوں کو قابل قبول ہوگا۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے جیونیوزکے پروگرام’’آپس کی بات‘‘میں میزبان منیب فاروق سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔پروگرام میں مسلم لیگ ق کے رہنما سینیٹرکامل علی آغا،پیپلزپارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ،سینئر تجزیہ کارافتخاراحمد،سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر،ایم کیوایم کے رہنما سلمان مجاہد اورسینئرتجزیہ کارمظہر عباس نے بھی شرکت کی۔سینیٹرکامل علی آغا نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف ہمیشہ معاملات میں ساز باز کرتے ہیں ، کوئی نہ کوئی این آر او ڈھونڈتے ہیں اور یہ جو افواج پاکستان اور عدلیہ کے اوپر چڑھائی ہے یہ رویہ بھی صرف دباو بڑھانے کیلئے ہے۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور نواز شریف کا تعلق وہ ٹھوس اثاثوں کی بنیادوں پر بھی ہے اور ان کی اپنی ذاتی سیاست ہے اس کے حوالے سے بھی بہت گہراجوڑ ہے ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب حاکم ڈیل بنانے میں ان کی ضامن رہی تو اس پس منظر میں جب وہ سعودی عرب گئے ہیں تو ایسے شک و شبہات ہوں گے کہ کوئی نہ کوئی مفاہمت وہاں ہو گی۔انہوں نے شرجیل میمن کی گرفتاری پر کہا کہ پیپلز پارٹی کے احتساب اور ن لیگ کے احتساب میں فرق ہے،وہ لوگ اس دائرے میں آتے نہیں اور ہمارے لیے احتساب کا معیار ہی دوسرا ہے ۔ عمران خان کے کیس پر سوال کے جواب میں عرفان قادر کا کہنا تھا کہ عمران خان کے کیس کے دو پہلو ہیں ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اثاثہ جات پورے ڈکلیئر نہیں کیے دوسرا پہلو یہ ہے کہ انہوں کے بھی اثاثہ جات کی تعداد ڈکلییر اثاثوں سے زیادہ ہے، لہذا اگر ہم پاناما کا فیصلہ دیکھیں تو اس میں جو پراپرٹیز لندن میں موجود ہیں اس کی نسبت سے پاناما کا کیس فائل کیا گیا تھا لیکن جب بات اقامہ پر آئی تو پاناما پر یہ نہیں کہا گیا کہ انہوں نے کوئی ایسا جھوٹ بولا ہے جبکہ اقامہ پر یہ کہا گیا کہ چھپایا گیا ،پانچ ججز کا متفقہ فیصلے میں زیادہ فوکس اقامہ پر تھا اور اثاثو ں کی زیادتی کا کیس سپریم کورٹ نے نیب کو حکم دیا کہ وہ اثاثوں کا ریفرنس فائل کریں، تو اس مثال کو اگر برقرار رکھتے ہوئے چیف جسٹس فیصلہ دیں گے تو عمران خان کی چھوٹی موٹی غلطی بھی ہوگی فیصلہ ان کے خلاف آسکتا ہے۔راناافضل نے مزید کہا گزشتہ روز سینیٹ میں کیا ہوا ، دو ہفتے قبل ایک فیصلہ کر تے ہیں اس کے بعد یو ٹرن مارتے ہیں یہ تو سوال اٹھتے ہیں، ڈیڑھ سال سے یہ بل چل رہا ہے آج یو ٹرن کس کے کہنے پر مار رہے ہیں۔سینیٹر مسلم لیگ ق کامل علی آغا نے اس موقع پر کہا کہ یہ بڑی خبر ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف کے نا اہل ہونے پر خوش ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پہلے وہ پارٹی کو وقت نہیں دے پاتے تھے، اب دے رہے ہیں ،اس سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تسلیم کر رہے ہیں،یہ لوگ نواز شریف کی نا اہلی سے خوش ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کے سپریم کورٹ میں فیصلے کے بعد بھی اور آئین کے تحت نا اہل ہونےکے باوجود پارٹی کا صدر رہنا لمحہ فکریہ ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ لیگ نے ختم نبوت والا معاملہ سینیٹ سے جیب تراشی والا معاملہ کیا تھااور وہ واپس لے لیا ، ابھی بھی جیب تراشی کر رہے ہیں، اتنی بڑی غلطی کرنے والے کا نام نہیں بتایا اور نہ ہی شکل دکھائی،نواز شریف ہمیشہ معاملات میں ساز باز کرتے ہیں ، کوئی نہ کوئی این آر او ڈھونڈتے ہیں اور یہ جو افواج پاکستان اور عدلیہ کے اوپر چڑھائی ہے یہ رویہ بھی صرف دباو بڑھانے کیلئے ہے ۔سینیٹ میں انتخابی اصلاحات کے قانون میں ترمیم کے بل کی منظوری کے بارے میں رہنما پاکستان پیپلز پارٹی نفیسہ شاہ نے کہا وہ شق جو موجود ہی نہیں تھی قانون میں، جسے جنرل مشرف لائے تھے ،مگر ن لیگ اس کو زبردستی لے کر آرہی ہے جس سے اداروں کے درمیان ٹکراو کا تاثر جاتا ہے تو یہ اچھا ہوا کہ سینیٹ میں اسے درست کیا گیا ، اور یہ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ سینیٹ سیاست میں توازن رکھتا ہے ، اور جو بل انہوں نے پاس کیا ہے ہمیں اسے اہمیت دینی چاہیے۔سینیئر تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا کہ اس ملک میں جو این آر اوز ہیں اس میں فوج ، سعودی عرب اور امریکا کا بہت بڑاکردار رہا اور کسی حد تک برطانیہ کے مفادات کو بھی سامنے رکھا گیا ،لیکن اس دفعہ میرے پاس ایسے شواہد نہیں ہیں کہ فوج کسی این آر او میں دلچسپی رکھتی ہے،اب فوج ان پہلوانوں کی کشتی دیکھ رہی ہے اور بالکل غیر جانبدار ہے ، اور جب یہ پہلوان تھک ہار کر مٹی پر بیٹھ جائیں گے اور ادھر دیکھیں گے ریفری کی طرف تو ریفری فوج نہیں ہے۔
تازہ ترین