• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کی پاکستان کے بعد بھارت روانگی کے موقع پر انتہاپسند مودی حکومت کی طرف سے کشمیری رہنمائوں کومذاکرات کی پیشکش کاپول کھل گیا ہے۔ریکس ٹلرسن ان دنوں مشرق وسطیٰ،ایشیا اور یورپ کے دورے پر ہیں۔پہلے مرحلے میں انہوں نے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان اور دیگر حکومتی عہدیداران سے ملاقات کی ہے۔وہ قطر بھی گئے اور اس کے بعد انہوں نے اچانک افغانستان کادورہ بھی کیا۔ افغانستان کا دورہ امریکی وزیر خارجہ کے پروگرام میں شامل نہیں تھا۔وہ اچانک کابل گئے اوربگرام ایئربیس پر افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کرکے دوگھنٹے بعد پاکستان کے لئے روانہ ہوگئے۔اُنہیں افغان طالبان کا اس قدر خوف تھا کہ وہ صدارتی محل میں افغان صدر سے ملاقات کے لئے نہ جا سکے بلکہ اُنہیں بگرام ایئر بیس پر ہی بلالیا۔اس وقت امریکی میڈیامیں ان کااس حوالے سے مذاق بھی اڑایاجارہاہے۔پاکستان میں بھی وہ چار گھنٹوں کے لئے آئے اور وزیر اعظم ہائوس میں سول اورعسکری قیادت سے ملاقات کے بعد انڈیا روانہ ہوگئے۔واقفان حال کاکہنا ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندی کررہا ہے۔بغداد اور ریاض کا اتحادقائم ہوگیا ہے۔ امریکہ نے واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ ایرانی ملیشیا فورسز عراق سے نکل جائیں۔سعودیہ اورعراق کاایک دوسرے کے قریب ہونے کا مطلب ایران کے گردگھیراتنگ کرنا ہے۔بظاہر یہ محسوس ہوتاہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں ایران کو تنہاکرناچاہتاہے۔وہ جنوبی ایشیامیں بھی پاکستان اور چین کے مقابلے میں ہندوستان کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے خلاف معمول امریکی وزیرخارجہ ٹلرسن کااسلام آباد میں گرم جوشی سے استقبال نہیں کیا اور امریکی حکام کو ’’نومور‘‘کہہ دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت محض مذاکرات کا ڈھونگ رچا نا چاہتی ہے اور اسے مسئلہ کشمیر حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔آل پارٹیز کانفرنس نے بھی ان نام نہاد مذاکرات کو مسترد کردیا ہے۔حریت قیادت کا کہنا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے۔اس کی شمولیت کے بغیر یہ دیرینہ قضیہ حل نہیں ہوگا۔آل پارٹیز حریت کانفر نس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے آج جمعۃ المبارک کوپورے جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھی بھارت کے سابق آئی بی کے سربراہ ونیشورشرما کی بطور مذاکرات کارتعیناتی کو غیر مخلصانہ قراردیا ہے۔پاکستان اور کشمیری قیادت کے بغیر ہونے والے مذاکرات بے معنی ہوں گے۔اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ بھارت طاقت کے زور پر جموں وکشمیر پر زیادہ دیر تک اپنا تسلط قائم نہیں رکھ سکتا۔بامقصد مذاکرات کے ذریعے ہی جموں وکشمیر کے مستقبل کافیصلہ ہوسکتا ہے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ امریکی وزیر خارجہ افغانستان کے بعد پاکستا ن اور بھارت کے دورے پر تھے ہندوستان کی جانب سے کشمیری رہنمائوں سے مذاکرات کی ایک نئی چال دکھائی دے رہی ہے ۔گزشتہ سات دہائیوں سے انڈیامذاکرات کے نام پر ٹال مٹول کی پالیسی پر عمل پیراہے ۔ماضی میں پاکستان کے ساتھ و جب بھی مذاکرات پر مجبو ر ہوا ہے اُس نے دانستہ طور پر کشمیری قیادت کومذاکراتی عمل سے دور رکھا ہے۔ حالانکہ پاکستان نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کشمیری قیادت کے بغیر مذاکرات کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔اب بھارت نے اس معاملے کے سب سے اہم اسٹیک ہولڈرپاکستان کو نظر انداز کرکے کشمیری رہنمائوں سے بات چیت کرنے کا اعلان کرکے نیا ڈرامہ رچایا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک طرف بھارت کشمیری قیادت سے مذاکرات کاڈھونگ رچارہا ہے اور دوسری طرف وہ مقبوضہ کشمیرپر اپنا غیر قانونی تسلط قائم رکھنے اور حق خود ارادیت کی تحریک کچلنے کے لئے جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کاتناسب کم کرنے کے مذموم اور ناپاک منصوبے پر کام کررہا ہے۔اس مقصد کے لئے ہندوستانی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسایاجارہا ہے تاکہ وہاں مسلم اکثریت اقلیت میں تبدیل کی جاسکے۔کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنزکی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی جنتاپارٹی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے منصوبوں پر بڑی تیزی سے عمل درآمد کیاجارہا ہے۔جموں وکشمیر کے عوام میں اس سلسلے میں عدم تحفظ کا احساس پایاجاتا ہے۔اس ناپاک منصوبے کوکامیاب بنانے کے لئے مردم شماری کی رپورٹ کو تبدیل اور بھارتی آئین کی کشمیر سے متعلق دفعہ 370کے خاتمے کے لئے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔پچھلے تین سالوں سے توتحریک آزادی کشمیر نے ایک نیارخ اختیار کرلیا ہے۔اب بھارت کے اندر سے بھی مسئلہ کشمیر پرپاکستان سے بامقصد مذاکرات کے لئے تواناآوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔یہ جموں وکشمیر کے عوام کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں۔پاکستان،بھارت اور کشمیری عوام۔ان تینوں فریقوں کے مل بیٹھنے سے ہی جموں وکشمیر کااہم اور حساس معاملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہوسکے گا۔اگر ہندوستان مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے واقعی سنجیدہ ہے تو اُسے پاکستان کو کشمیری قیادت کے ساتھ مذاکراتی عمل کی دعوت دینی چاہئے۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کو باہر رکھ کر ہندوستان مسئلہ کشمیر کوحل کرلے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے مسلسل ظلم وستم کے واقعات انتہائی تشویش ناک ہیں۔ضلع کپواڑہ اور وادی لیپا میں بھارتی سیکورٹی فورسز کی بلااشتعال فائرنگ سے متعدد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ابھی حالیہ بھارتی فائرنگ کے نتیجے میں وادی لیپا میں دوخواتین شہید ہوئیں اورچھ پاکستانی شہری زخمی ہوئے۔پاکستانی وزارت خارجہ نے اس معاملے کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور ا س حوالے سے انڈین ہائی کمشنر کو طلب کرکے اُنہیں احتجاجی مراسلہ بھی تھمایا ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے بلاجواز فائرنگ اور گولہ باری کاسلسلہ کئی مہینوں سے جاری ہے۔اگرچہ پاک فوج نے وادی لیپامیں ہندوستانی فوج کو بھرپور جوابی فائرنگ کرکے پسپاکردیا ہے اور وہاں چاربھارتی چوکیوں کو بھی تباہ کردیا ہے۔جس سے دشمن کو بھاری نقصان پہنچاہے۔تاہم پاکستان نے اقوام متحدہ میں اس کے خلاف آواز بلند کی ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کے باوجودعالمی برادری حرکت میں نہیں آرہی۔ ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظالم میں اضافہ کردیا ہے اور محض چند دنوں میں 100سے زائد خواتین کے بال کاٹنے جیسے واقعات نے انڈین فوج کے شرمناک اورگھنائونے چہرے کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں بربریت کی انتہاکرچکا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ،عالمی برادری اور انسانی حقوق کاپرچارکرنے والی این جی اوز دانستہ اندھی،بہری اور گونگی ہوچکی ہیں۔بھارت ظلم کا بازار مقبوضہ کشمیر میں زیادہ دیرتک قائم نہیں رکھ سکتا۔وہ وقت اب دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر بھی عملاً پاکستان کا حصہ بنے گا۔پاکستان کے21کروڑ عوام اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی اخلاقی،سفارتی اور سیاسی حمایت کاسلسلہ جاری رکھیں گے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔اس سے دستبردار ہونے کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔ طرفہ تماشایہ ہے کہ کرم ایجنسی کے بعد بلوچستان اور شمالی وزیرستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو غیر محفوظ کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور اس کے پیچھے بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں کارفرما ہیں۔ کرم ایجنسی میں فوجی کیپٹن سمیت4اہلکاروں کی شہادت کے واقعہ کی مکمل تحقیقات کرتے ہوئے اصل ذمہ داروں اور ان کے آلہ کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایاجانا چاہئے۔پاک فوج اور دیگرسیکورٹی فورسز کی کاوشوں کی وجہ سے ملک میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔دہشت گرد پاکستان کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کے لئے ایسی گھنائونی حرکتیں کررہے ہیں اور ان کے تانے بانے انڈین خفیہ ایجنسی را ،اسرائیلی موساد اور امریکن سی آئی اے سے ملتے ہیں۔ملک دشمن قوتیں پاکستان میں انتشار،دہشت اور خوف کی فضاقائم کرنا چاہتی ہیں۔ سیاسی وعسکری قیادت ایسی دفاعی پالیسیاں مرتب کریں جو حقیقی معنوں میں عوام کو تحفظ فراہم کرسکیں۔

تازہ ترین