• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

( گزشتہ سے پیوستہ)
سوال۔ ایک جگہ اس نے لکھا ہے کہ جہنمی بھی ہیں؟
(یہاں مفتی صاحب فرماتے ہیں جب قومی اسمبلی کے ممبران نے یہ سنا تو سب کے کان کھڑے ہوگئے کہ اچھا ہم جہنمی ہیں اس سے ممبروں کو دھچکا لگا)
اسی موقع پر دوسرا سوال کیا کہ مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبرؓ یا حضرت عمر فاروقؓ امتی نبی تھے؟
جواب۔ نہیں تھے۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے کہا پھر تو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجھتے ہیں۔ تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجھتے ہو تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
جواب۔ وہ فنا فی الرسول تھے، یہ ان کا اپنا کمال تھا۔ وہ عین محمد ہوگئے تھے (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں اس سے زیادہ گستاخی کیا ہوسکتی تھی )
سوال۔ مرزا غلام قادیانی نے اپنی کتابوں کے بارے میں لکھا ہے۔ اسے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے اور ان کے معارف سے نفع اٹھاتا ہے۔ مجھے قبول کرتا ہے اور (میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے مگر (ذزیتہ البغایا) بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکھی ہے وہ مجھے قبول نہیں کرتے؟
جواب۔ بغایا کہ معنی سرکشوں کے ہیں۔
سوال۔ بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے’’ و ما کانت امک بغیا‘‘ سورہ مریم) ترجمہ ہے تیری ماں بدکارہ نہ تھی‘‘
جواب۔ قرآن میں بغیا ہے۔ بغایا نہیں۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔ نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بھی مذکور ہے یعنی ’’البغایا للاتی ینکحن انفسہن بغیر بینہ‘‘) پھر جوش سے کہامیں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بینہ کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں کر کے دیکھا سکتے۔
(اور مرزا طاہر لاجواب ہوا یہاں )
13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گھڑی آئی تو 22 اگست 1974کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جن میں مفتی محمود صاحب‘ مولانا شاہ احمدنورانی صاحب‘ پروفیسر غفور احمد صاحب‘ چوہدری ظہور الہی صاحب‘ مسٹر غلام فاروق صاحب‘ سردار مولا بخش سومرو صاحب اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب تھے۔ ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانونی طور پر اس کا حل نکالیں تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے کفر کو درج کردیا جائے لیکن اس موقع پر ایک اور مناظرہ منتظر تھا۔
کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح تیرہ روز تک جاری رہی۔ گیارہ دن ربوہ گروپ پر اور دو دن لاہوری گروپ پر۔ ہرروز آٹھ گھنٹے جرح ہوئی اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرے کو بے نقاب کر کے رکھ دیا۔ اس کے بعد ایک اور مناظرہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے شروع ہوا کہ آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا ’’حاصل مغز‘‘ کیسے لکھا جائے؟
مسلسل بحث مباحثہ کے بعد۔
22 اگست سے 5 ستمبر 1974کی شام تک اس کمیٹی کے بہت سے اجلاس ہوئے مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔ سب سے زیادہ جھگڑا دفعہ 106میں ترمیم کے مسئلے پر ہوا۔ حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو اس دفعہ 106کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی تھی۔ ایک سیٹ بلوچستان میں، ایک سرحد میں، دو سندھ میں اور پنجاب میں تین سیٹیں اور کل6 اقلیتوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ عیسائی۔ ہندو پارسی۔ بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچھوت۔
مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے تھے کہ ان 6کی قطار میں قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ کوئی ’’شبہ‘‘ باقی نہ رہے۔ اس کیلئے بھٹو حکومت تیار نہ تھی۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا اس بات کو رہنے دو۔ مفتی محمود صاحب نے کہا جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو انکا نام بھی لکھ دیں۔
پیرزادہ نے جواب دیا کہ ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تھا کہ ہمارا نام لکھا جائے جبکہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں ہے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے انہیں دے رہے ہیں (کمال کا جواب)
اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک کمیٹی کوئی فیصلہ ہی نہ کرسکی چنانچہ 6ستمبر کو وزیراعظم بھٹو نے مفتی محمود سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا لیکن یہاں بھی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔ حکومت کی کوشش تھی کہ دفعہ 106میں ترمیم کا مسئلہ رہنے دیا جائے۔
جب کہ مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان سمجھتے تھے کہ اس کے بغیر حل ادھورا رہے گا۔
بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بھٹو صاحب نے کہا کہ میں سوچوں گا۔عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مفتی صاحب اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ مفتی محمود صاحب اور کمیٹی نے وہاں بھی اپنے اسی موقف کو دہرایا کہ دفعہ 106 میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام لکھا اور اس کی تصریح کی جائےاور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکھا جائے۔
پیرزادہ صاحب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔مفتی محمود صاحب نے کہا کہ احمدی تو ہم ہیں۔ ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے پھر کہا کہ چلو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو۔ مفتی صاحب نے کہا لہٰذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ، لاہوری گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں اور پھر الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔
تاریخی فیصلہ۔
7 ستمبر 1974ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تھا جب 1953اور 74ء کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
دستور کی دفعہ 260میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔ ’’جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور محمدؐ کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔ وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔
اور دفعہ 106کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔ ’’بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کیلئے مخصوص نشستیں ہوں گی جو عیسائی، ہندو وسکھ، بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانی گروہ یا لاہوری افراد (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکھتے ہیں (ان کی) بلوچستان میں ایک، سرحد میں ایک، پنجاب میں تین اور سندھ میں دو سیٹیں ہوں گی‘‘ یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے کہ اس ترمیم کے حق میں 130ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بھی ووٹ نہیں آیا۔ (آجاتا اگر غامدی صاحب اس وقت موجود ہوتے) اس موقع پر اس مقدمہ کے قائد مفتی محمود رحمہ اللہ نے فرمایا۔
اس فیصلے پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔ میرے خیال میں مرزائیوں کو بھی اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہئے کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے اور پھر فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں (ملک کے) الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں۔
’’شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات‘‘

تازہ ترین