• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوم کو جن گمبھیر مسائل کا سامنا ہے انہیں حل کرنے کیلئے حکومت جس غیرسنجیدہ رویئے کا مظاہرہ کررہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو اسے انکا ادراک نہیں یا پھر کوئی دلچسپی نہیں ۔ اس عدم دلچسپی کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ روز سول اسپتال تھرپارکر کے علاقے مٹھی میں غذائی قلت اور بیماریوں کے باعث مزید دوبچے دم توڑ گئے۔ اس طرح رواں ماہ کے پہلے ہفتے کے دوران جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد سات ہوگئی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ غذائی قلت اور بیماریوں کا شکار ہونے والے ان بچوں کے علاج کے لئے معیاری تو درکنار عام طبی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ معیاری غذا اور علاج معالجے کی سہولتوں کے فقدان کا شکار صوبہ سندھ ہی نہیں پورے ملک کے دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ ولی آباد پشاور کے رہائشی 55سالہ لیاقت کو یکم نومبر کو خیبر ٹیچنگ اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں وہ چار روز موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد گزشتہ روز دم توڑ گیا۔ صوبہ پختونخوا میں ڈینگی سے ہلاکتوں کی تعداد 68ہوگئی ہے جبکہ ڈینگی کے شکار مزید 30 مریضوں کو اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔ اس وقت پختونخوا کے مختلف اسپتالوں میں ڈینگی سے متاثر مریضوں کی تعداد 202ہے۔ مریضوں کی تعداد میں یہ کمی حکومت کی طرف سے طبی سہولتوں کی فراہمی سے نہیں بلکہ موسم مزید سرد ہونے کی وجہ سے آئی ہے۔ اس خراب صورت حال کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس باب میں منصوبہ بندی اور مؤثر اقدامات کریں اور ساتھ ہی پبلک ہیلتھ نیوٹریشن اور دوسرے منصوبوں کی کارکردگی میں بہتری کیلئے تجربہ کار ماہرین غذائیت پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے اور اس کی سفارشات کے مطابق حکمت عملی وضع کی جائے۔ اسپتالوں اور خاص طور پر سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی میں بہتری لانے کیلئے ضروری ہے کہ دواؤں کی فراہمی اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی ہمہ وقت موجودگی یقینی بنائی جائے تاکہ عوام کو تمام مطلوبہ طبی سہولتیں حسب ضرورت فراہم کی جاسکیں۔

تازہ ترین