• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ملک کے سیاسی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں ، جہاں جمہوریت کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے ۔ اس فیصلے کا انحصار سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر ہے کہ وہ اپنی سیاست میں واپسی کے لئے کیا راستہ اختیار کرتے ہیں اور اس راستے سے ملک میں جمہوریت کمزور ہوگی یا مضبوط ۔ اگرچہ میاں محمد نواز شریف عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے عدالتی نظام کو تسلیم کرتے ہیں اور اپنے خلاف ریفرنسز اور مقدمات کا سامنا کرنے کے لئے وہ قانونی راستہ اختیار کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بیانات بھی دے رہے ہیں کہ عدالتوں سے انہیں انصاف کی توقع نہیں ہے ۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’ احتساب ‘‘ سے بچنے اور سیاست میں دوبارہ واپس آنے کی ان کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں اور وہ اپنی سیاسی مشکلات سے نکلنے کے لئے قانون کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کر سکتے ہیں ، جس سے ملک میں جمہوری عمل کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔
پاناما پیپرز کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کے لئے سابق وزیر اعظم کی درخواست پر سپریم کورٹ نے جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے ، اس میں بھی ایسی زبان استعمال کی گئی ہے ، جو میاں محمد نواز شریف کی نیک نامی ، اہلیت اور ساکھ کے لئے اور زیادہ نقصان دہ ہے ۔ پاناما کیس کے فیصلے میں نہ صرف میاں محمد نواز شریف کو کسی سرکاری اور سیاسی عہدے کے لئے نااہل قرار دیا گیا بلکہ ان کے لئے ’’ گاڈ فادر ‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے گئے ۔ پاناما کیس کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں نہ صرف نواز شریف کی نااہلی کو درست قرار دیا بلکہ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر لوگوں کو اور عدالت کو بے وقوف بنایا ۔ پاناما کیس کے فیصلے اور اس پر نظر ثانی کے کیس کے فیصلے میں عدلیہ نے جو زبان استعمال کی ہے ، اس پر قانونی ماہر زیادہ بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں اور وہ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ مستقبل میں ان اہم مقدمات کے فیصلوں کی زبان کو عدالتی نظیر کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا یا نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے لئے زیادہ مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اور پاکستان کی سیاست میں ان کی واپسی کا قانونی راستہ مزید تنگ ہوتا جا رہا ہے ۔ سابق وزیر اعظم نے نظر ثانی کیس پر عدالتی فیصلے کو توقع کے مطابق قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ’’ جج صاحبان کا غصہ ، ان کے فیصلوں کی زبان میں سامنے آچکا ہے ۔ ‘‘ میاں محمد نواز شریف اگرچہ یہ کہتے ہیں کہ وہ عدالتوں سے نہیں بھاگیں گے اور مقدمات کا سامنا کریں گے لیکن وہ عدالتوں پر اعتماد کا اظہار بھی نہیں کر رہے ہیں ۔ وہ یہ بیان بھی دیتے ہیں کہ ’’ عدالتوں نے ہمیشہ آمروں کو تحفظ دیا ۔ ‘‘ ان کی بیٹی مریم نواز کہتی ہیں کہ ’’ دلیل نہ ہونے پر منصف مخالف وکیل بن گئے ۔ ‘‘ دوسری طرف عدلیہ پر ہونے والی تنقید کا خود جج صاحبان کو بھی احساس ہے ۔ اگلے دن چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیئے کہ عدلیہ پر جو تنقید ہو رہی ہے ، وہ اس پر بہت صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اس تنقید کو درست قرار نہیں دیا ۔
مذکورہ بالا حقائق کے تناظر میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو عدالتوں سے کوئی امید نہیں رہی ہے اور عدلیہ کو بھی اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ حالات کیا رخ اختیار کر سکتے ہیں ۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیر موثر بنانے کے لئے پارلیمنٹ کا سہارا لیا اور پارلیمنٹ میں قانون منظور کرا کے دوبارہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ بن گئے ۔ یہ ایک مثال موجود ہے ۔ اب وہ مزید ایسے اقدامات کر سکتے ہیں ، جو ان کی دانست میں انہیں بڑھتی ہوئی مشکلات سے نکال سکتا ہے ۔ انہوں نے پہلے بھی اپنی ذات کے لئے پارلیمنٹ کو استعمال کیا اور وہ آئندہ بھی اپنی ذات کے لئے پارلیمنٹ ، اپنی سیاسی جماعت اور دیگر اداروں کو استعمال کر سکتے ہیں ۔ ان کے گرد جس طرح گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، انہیں یہ احساس دلانا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہو گا کہ جمہوری عمل کسی فرد کے سیاسی مستقبل سے زیادہ اہم ہوتا ہے ۔ اگرچہ وہ اس بات کا ادراک بھی رکھتے ہوں گے لیکن اس وقت ان کے لئے اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل زیادہ اہم ہے ۔ وہ اس کے لئے کوئی بھی ایسا راستہ اختیار کر سکتے ہیں ، جس کے سوا ان کی دانست میں کوئی چارہ نہیں ہے ۔
دوسری طرف بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں بھی پاکستان کے لئے مستقبل قریب میں بہت سے مسائل دکھائی دے رہے ہیں ۔ بعض عالمی قوتیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے اپنے ایجنڈوں کو بہت حد تک ظاہر کر چکی ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف کے لئے قانونی راستے کی بجائے سیاسی راستہ زیادہ کھلا ہوا نظر آتا ہے ۔ یہ ان کی سیاسی دانست اور بصیرت کا امتحان ہے ۔ ایک امکان تو یہ ہو سکتا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات تک عدالتی معاملات کو کسی طرح طول دے دیں اور عام انتخابات میں دوبارہ بھاری مینڈیٹ لے کر آ جائیں۔ اس طرح حالات ان کے حق میں ہوجائیں گے ۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ وہ ابھی سے آئندہ عام انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کے خدشات سے دوچار ہوں اور انتخابات سے پہلے ہی حالات کو اپنے حق میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ یہ کوشش تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور اس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے ۔ بہرحال اس وقت حالات اس نہج پر ہیں کہ جمہوریت کے مستقبل کے فیصلے کا انحصار میاں محمد نواز شریف پر ہے۔

تازہ ترین