• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مورخہ 11نومبر محبی و محترمی منوبھائی کے کالم میں میرے ایک شعر کا حوالہ دیا گیا جو شاید کمپوزنگ کے دوران اوپر نیچے ، آگے پیچھے ہوگیا۔ تصحیح فرمالیں ۔ اصلی شعر اس طرح ہے۔مرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچامیں حُر ہوں اور ابھی لشکر یزید میں ہوںاب چلتے ہیں اس مبارک باد کی طرف جو میں اپنے ہم وطنوں کو پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آخر کار ان کا لحیم شحیم وزیر اعظم آہستہ آہستہ سچ مچ کا وزیر اعظم دکھائی دینے لگا ہے۔ مزید چند ہفتوں میں مزید یقین آگیا تو ’’مزید‘‘ وزیر اعظم دکھائی دینے لگیں گے اور ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ وہ ایک ایٹمی طاقت کے وزیر اعظم ہیں جس کی آبادی 21کروڑ سے زیادہ ہے اور یہ آبادی عالیشان عدلیہ اور اک زبردست آرمی سے ہی ’’مسلح‘‘ نہیں بلکہ یہاں بڑے بڑے اور کڑے کڑے احتساب کا کلچر بھی تیزی سے جڑیں پکڑ رہا ہے۔احتساب، انصاف کے بعد ایسی ہی یکسوئی، تندہی اور خلوص کے ساتھ اگر معیاری تعلیم اور علاج معالجہ پر بھی فوکس کرلیا گیا، ترجیحات میں پاپولیشن مینجمنٹ بھی شامل کرلی گئی تو یہ پھڑ پھڑاتا ہوا ملک کسی کو پھڑائی نہیں دے گا۔ یہ درست ہے کہ کنگ سائز نااہلوں نے اداروں کا ستیاناس کرکے رکھ دیا لیکن اگر صرف دو ادارے ’’ایف بی آر‘‘ اور ’’نیب‘‘ ہی ٹھیک ہو جائیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ ہاتھی کے پائوں میں سب کاپائوں والا محاورہ بہت پائے کا ہے۔ ’’نیب‘‘ کے نئے سربراہ کی آمد کے بعد ’’نیب‘‘ کے تیور تو ایسے ہیں کہ نظر اتارنے کو جی چاہتا ہے۔بدلے بدلے مرے سرکار نظر آتے ہیںگھر کی آبادی کے آثار نظر آتے ہیںکرپشن کدہ میں خوشخبریوں کی یلغار نے کہرام مچا رکھا ہے۔ سنوسنو کہ جن کی کبھی نہ سنی گئی ، ان کی بھی سنی جا رہی ہے۔ 3رکنی بنچ حدیبیہ کیس کی سماعت کرے گا۔بیس اکیس برس پہلے میں نے تحریک انصاف کو چند نعرے دیئے تھے...........اساسی نعرے جو تب خواب لگتے تھے۔کچھ اور نہیں وعدۂ تعبیر کے بدلےہم خواب فروشوں سے کوئی خواب خریدےوہ خواب، وہ نعرے کیا تھے؟٭حکم اللہ کا٭قانون قرآن کا٭رستہ رسولؐ کا٭پاکستان سب پاکستانیوں کادوسرا حصہ تھا’’انصاف عام، احتساب سرعام، اقتدار میں عوام‘‘مدتوں یہ سب پی ٹی آئی کے لٹریچر کا حصہ رہا۔ اب ہے یا نہیں؟ میں نہیں جانتا لیکن خوابوں کی تعبیر کی جھلکیاں سی دکھائی دے رہی ہیں۔ حدیبیہ پیپر ملز کیس ری اوپن ہونے کا امکان ہے، ہو گیا تو سمجھو معجزے کبھی بھی ہو سکتے ہیں، سو چکے نصیب کسی بھی وقت بیدار ہو سکتے ہیں۔یہ بھی سنا ہے کہ سوئس بینکوں میں موجود پاکستانیوں کے 200ارب سے زیادہ ڈالرز کی واپسی پر بھی غورو فکر جاری ہے۔ چند ہفتوں میں عمل درآمد کا امکان ہے۔ ’’نیب‘‘ نے شریف خاندان کی برطانیہ میں مزید کمپنیوں، جائیدادوں کا سراغ لگا کر ان سے خاندان کی جائیدادوں کا ریکارڈ مانگ لیا ہے۔ ظفر حجازی جیسی ’’علامت‘‘ کی درخواست بریت بھی مسترد ہو چکی۔ ایسے ’’وفادار‘‘ لگا تار اقتدار کے نتیجہ میں جنم لیتے ہیں جن کی وفاداریوں کا محور و مرکز ملک و قوم نہیں ’’فرد واحد‘‘ ہوتا ہے جو میرٹ کو روند کرانہیں اندھا دھند نوازتا ہے۔ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ مہذب دنیا نے بہت سوچ سمجھ کر ’’عرصہ اقتدار‘‘ کو اسی لئے محدود اور مختصر رکھا ہے کہ ملک و قوم کو ’’طوالت اقتدار‘‘ کی لعنت سے محفوظ رکھا جا سکے............ بہرحال بات ہو رہی تھی خوشخبریوں کی جن میں سے ایک خوشخبری نے مجھے حیران و پریشان ہی نہیں، تھوڑا سا اداس بھی کردیا ہے۔ ایک قومی روز نامہ (’’جنگ‘‘ نہیں) میں ایک ایسی خبر صفحہ اول پر شائع ہوئی ہے جسے ماننے کو جی نہیں چاہا لیکن دو دن کے بعد بھی تردید نہیں آئی جس پر مجھے رنج ہے کیونکہ یہ صاحب ن لیگ کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں میں نے کبھی گھٹیا پن پر اترتے نہیں دیکھا، ہمیشہ شائستہ پایا جیسے ان کے گورنر سندھ زبیر کبھی ناگوار نہیں گزرے،سلجھی ہوئی مدلل گفتگو اور چودھری نثار تو ہیں ہی جن کی امانت دیانت پر کبھی کسی نے انگلی نہیں اٹھائی لیکن فی الحال میرا موضوع مفتاح اسماعیل ہیں۔ صرف ایک سرخی اور دو ضمنیاں دیکھ لیں، آپ کو میرا دکھ سمجھ آجائے گا کیونکہ میں نے انہیں بھی کچھ اور سمجھا ۔ ’’462ارب کی کرپشن، کابینہ کے اہم رکن مفتاح اسماعیل کو گرفتار کرنے کی تیاریاں‘‘’’مبینہ طور پر ڈاکٹر عاصم کے ساتھ مل کر ایل پی جی کوٹہ فراہمی میں قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا تھا‘‘’’میگا سکینڈل میں 7ملزمان پہلے ہی گرفتار، مفتاح اسماعیل تفتیش کے بعد بھی آزاد۔ چیئرمین ’’نیب‘‘ کا اظہار حیرت، رپورٹ مانگ لی‘‘انسان جائے تو جائے کہاں؟ لیکن پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ، کہ شجر پر شگوفے تو دکھائی دینے لگے ہیں۔ آگے اللہ جانے۔

تازہ ترین