• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا خدا کر کے 19برس بعد ملک میں نئی مردم شماری ہوئی، اس چھٹی مردم شماری کے عبوری نتائج کااعلان اگست2017ء میں کیا گیا ۔ آئین کی شق 51(3) کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا ازسر نو تعین اور حلقوں میں ردوبدل مردم شماری سے مشروط ہے۔ الیکشن کمیشن بہت پہلے سے حکومت سے کہہ رہا تھا کہ نئی حلقہ بندیوں کے تقاضے پورے کئے جائیں تاکہ الیکشن 2018ء بروقت ممکن بنائے جا سکیں لیکن حکومت نے اسے نظر انداز کر دیا جبکہ انتخابی ایکٹ 2017ء کے مطابق الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا جو اعلان کیا ہے۔ اس کے مطابق قومی و پنجاب اسمبلی 31مئی جبکہ سندھ ، کے پی کے اور بلوچستان 28مئی 2018ء کو تحلیل ہونگی۔ آئین کے آرٹیکل 234کے مطابق اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 60 دن تک نئے انتخابات کرانا ضروری ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ آئینی تقاضے پورے کرنے کیلئے مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں اور ووٹر فہرستوں کے علاوہ دیگر انتخابی انتظامات کیلئے کم از کم چھ مہینے درکار ہونگے ۔ دسمبر 2017ء سے گھر گھر جا کر ووٹرز کی تصدیق کا عمل شروع کیا جائیگا ، جنوری میں انتخابی فہرستیں آویزاں کی جائینگی۔ فروری میںاعتراضات دُور کئے جائیں گے جبکہ مارچ سے اپریل تک نئی فہرستیں شائع کی جائینگی اور نئی انتخابی فہرستیں 5مئی 2018ء کو منجمد کر دی جائینگی۔ 2018ء کے عام انتخابات کیلئے انتخابی مواد کی خریداری شروع کر دی گئی ہے ۔ دس کروڑ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے، شفافیت کیلئے واٹر مارک بیلٹ پیپرز چھاپے جائیں گے ، ایک پولنگا سٹیشن میں زیادہ سے زیادہ چار پولنگ بوتھ ہونگے جبکہ کل ووٹرز کی تعداد 12سو ہوگی ۔ ملک میں 23ہزار سے زیادہ بلاکس اور 527سرکلز بنائے جائیں گے، الیکشن کمیشن نے یہ بھی بتایا کہ سنجیدہ امیدواروں کو سامنے لانے کیلئے کاغذات نامزدگی کی فیس بڑھا دی گئی ہے ۔ قومی اسمبلی کا امیدوار 30 ہزار جبکہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار 20ہزار روپے دیگا اور قومی اسمبلی کا امیدوار الیکشن اخراجات کی مد میں اب15لاکھ کی بجائے 40لاکھ اور صوبائی امیدوار 10لاکھ کی بجائے 20لاکھ خرچ کر سکے گا۔
ایک طرف الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بروقت انعقاد کیلئے اپنا پروگرام دے دیا ہے، گو اس حوالے سے کئی ایک سوالات اٹھتے ہیں دوسری طرف حکومت اور سیاسی جماعتیں اپنی روایتی سیاست کو برقرار رکھتی نظر آتی ہیں ان کا کوئی بھی قدم سنجیدہ نہیں لگتا ۔ اگست میں مردم شماری کے عبوری نتائج کا اعلان ہوا تو یہ سوال اٹھا کہ جب تک نتائج کا حتمی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوتا تب تک نہ تو نئی حلقہ بندیاں ہو سکتی ہیں اور نہ ہی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں ردوبدل، محکمہ شماریات کا یہ موقف سامنے آیا کہ 30اپریل سے پہلے حتمی نتائج کا اعلان نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر 30اپریل 2018ء کے بعد یہ سارا کام کیا جاتاہے تو اس کیلئے چھ مہینے درکار ہونگے ،ا س لحاظ سے الیکشن جنوری2019ء میں منعقد ہو سکتے ہیں، حکومت پوری طرح آگاہ تھی ۔ لیکن اس کو سنجیدگی سے نہ لیا اور اکتوبر کے آخر میں آکر پارلیمانی جماعتوں کا اجلاس بلایا گیا جس میں ابتدائی طور پر ساری جماعتوں نے عبوری نتائج کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا کہ بیشک مردم شماری کے بعد ملکی آبادی میں اضافہ ہوا ہے لیکن قومی اسمبلی کی کل نشستوں میں اضافے کی بجائے اس میں ایڈجسٹمنٹ کی جائے چونکہ پنجاب کی آبادی میں کوئی زیادہ اضافہ نظر نہیں آیا اسلئے قومی اسمبلی کی 147نشستوں کو کم کر کے 140کر دی جائیں ، اس طرح 2مخصوص نشستیں ملا کر 9کم ہو جائینگی ، پختوانخواکی پہلے 34نشستیں تھیں یہ بڑھا کر 38کر دی جائیں ، ایک مخصوص نشست بڑھنے سے کل 5قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھ جائینگی ۔ بلوچستان کی کل 3نشستیں بڑھا دی گئیں ۔ اسطرح اسلام آباد کی دو سے بڑھ کر تین نشستیں ہوگئیں جبکہ سندھ اور فاٹا کی پہلی نشستیں برقرار رہیں گی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں بھی اضافہ نہیں کیا جائیگا۔
ا سپیکر قومی اسمبلی کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں اس فیصلے کے بعد طے کیا گیا کہ اس حوالے سے آرٹیکل (51) میں ترمیم کیلئے قومی اسمبلی میںبل پیش کیا جائے ۔ لیکن جب بل پیش ہوا تو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا، پی پی کا موقف یہ ہے کہ آئینی طور پر بل اس طرح پیش نہیں کیا جا سکتا پہلے مشترکہ مفادات کونسل سے اس کی منظوری لی جائے کیونکہ ہمیں تاثر دیا گیا تھا کہ یہ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیا جائیگا ۔ ایم کیو ایم کا موقف یہ ہے کہ چونکہ ہم مردم شماری کے نتائج سے مطمئن نہیں اور اس بل کی حمایت کامطلب یہ ہے کہ ہم نے مردم شماری کے عبوری نتائج کو تسلیم کرلیا ہے ،حکمراں جماعت نے پارلیمانی سربراہوں کے کئی اجلاس کئے مگر بے نتیجہ رہے، لیکن اب مجبوراً حکمراں جماعت کو آج مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا نا پڑا ہے،جبکہ سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے مردم شماری کے نتائج پر تحفظات دور کرنے اور نتائج کی تصدیق کیلئے صوبوں کی مشاورت سے 2سے 3فیصد بلاکس پر دوبارہ مردم شماری کی شفارش کی ہے۔ دیکھتے ہیں اب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کیا موقف اختیار کرتی ہے ۔ شنید ہے کہ اب پی ٹی آئی قبل از وقت انتخابات کے اپنے مطالبے پر ڈٹے رہےگی اور پیپلز پارٹی اس معاملے کو مزید اُس وقت تک لٹکائے گی جب تک وہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں اپنے حصے کو محفوظ نہیں بنا لیتی ۔
دوسری طرف عوام اور سیاست کے طالب علموں اور سیاسی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ حکمراں جماعت اور پی پی ایک منصوبہ بندی سے کر رہی ہیں ۔ وہ نہیں چاہتے کہ ا سٹیٹس کو ٹوٹے، چونکہ اگر حتمی نوٹیفکیشن کے بعد کسی جماعت کو یہ نتائج تسلیم نہیں تو وہ عدالت میں جا سکتی ہے پھر ایک پنڈورا بکس کھل جائیگا ۔ نئے سرے سے حلقہ بندیاں اور نشستوں کے تعین کیساتھ ساتھ اس کے مطابق نئی ووٹر فہرستیں تیار ہونگیں ۔ جس سے بڑی پارٹیوں کا ا سٹیٹس کو ٹوٹ سکتا ہے ۔ پھر موجودہ حالات میں جب نواز شریف کیخلاف نیب میں کیس فیصلے کی طرف جارہے ہیں تو پیپلز پارٹی قطعی طور پر کسی بھی ایسی قانون سازی کیلئے ساتھ نہیں دیگی جس سے ن لیگ کی پوزیشن میں استحکام پیدا ہو ۔ آنیوالے دنوں میں ملک کے سیاسی اور معاشی حالات مزید بگاڑ کی طرف بڑھیں گے الیکشن کا انعقاد تکنیکی موشگافیوں میں گم ہو جائیگا۔ اسوقت پاناما کے بعد پیرا ڈائز لیکس میں جودو سو سے زیادہ بیورو کریٹس ، جنرلز اور سیاستدانوں کے نام آئے ہیں اور کرپشن کے اتنے بڑے بڑے اسکینڈلز سامنے آرہے ہیں ایسے میں حالات کو درستگی کی طرف لانے کا صرف ایک ہی فارمولا ہے کہ ملک بھر میں کرپٹ مافیاز خواہ وہ کسی بھی طبقے ، گروہ ، جماعت اور ادارے سے تعلق رکھتے ہوں انکا بے لاگ احتساب کیا جائے اور الیکشن سے پہلے نااہل اور اہل لوگوں کی تمیز اور تفریق واضح طور پر سامنے لائی جائے ۔ الیکشن سسٹم میں انتخابی ایکٹ 2017ء کے مطابق اصلاحات کو یقینی بنایا جائے، تب الیکشن کروائیں جائیں تو شاید اس ملک کے عوام کیلئے بھی کوئی بہتری آسکے اور صحیح معنوں میں جمہوری سفرکی طرف گامزن ہو سکیں مگر ہمارے حکمراں اور سیاستدان یہ چاہتے ہی نہیں کہ اُن کی سیاسی دکانداریاں بند ہوں۔ اس کیساتھ ساتھ الیکشن کمیشن نے جس طرح اپنی خود مختاری ثابت کرنے کیلئے اقدامات کئے ہیں وہ تو عام آدمی کو الیکشن سسٹم سے دور رکھنے کیلئے ہیں کیونکہ نامزدگی کی اتنی زیادہ فیس پھر اخراجات کی اتنی بڑی حد تو کوئی عام امیدوار پوری نہیں کر سکتا اور جب عام آدمی کی اسمبلیوں میں نمائندگی نہیں ہوگی تو پھر اشرافیہ کی ہی جمہوریت ہوگی!

تازہ ترین