• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طبل جنگ بج چکا۔ جنگ کی تیاری زور و شور سے جاری ہے۔ ایک طرف واویلا، مرو اور مارو اور دوسری طرف خاموشی اور اختیار ہے۔ لکھاری، تجزیہ نگار اور دانشور دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہو چکے۔ ایک طرف یلغار اور دوسری طرف دفاع کا جادو سر پر چڑھ کر بول رہا ہے۔ حکومتی وسائل کے ذریعے درباریوں کی جیبیں گرم اور مخالفوں کی زبانیں نرم کی جارہی ہیں۔ معاشرہ کے باطن میں تقسیم کی لکیر دن بدن گہری اور واضح ہوتی جارہی ہے۔ انتخابات کی آمد کا ڈول ڈالا جا چکا ہے۔ جلسے، جلوسوں کا موسم شروع ہو چکا ہے۔ کارکنوں کے خون کو گرم کیا جارہا ہے اور عوام کو گرمایا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس متحارب، جذباتی، مشتعل اور ’’تصادمی‘‘ فضا میں جہاں توازن دم گھٹنے سے مر رہا ہے وہاں علمی تجزیوں، نیوٹرل موقف اور کھری بات کرنی مشکل ہوتی جارہی ہے۔ شاید لوگ بھی اس قدر منقسم اور جذباتی ہو چکے ہیں کہ وہ بھی صرف الزامات کی ڈھولک سننا چاہتے ہیں۔ محرومیوں، بے انصافیوں اور مظلومیت کی بلند آہنگ شام غریباں نے بہت سے حقائق پر پردہ ڈال دیا ہے۔ اس تصادم اور جنگ میں کس کو زیادہ نقصان پہنچتا ہے، کس ادارے کے تقدس میں شگاف ڈالا جاتا ہے، کس خفیہ ہاتھ کو بے نقاب کیا جاتا ہے اور مخملی ڈنڈا کیا کام دکھاتا ہے، یہ سب کچھ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ البتہ کراچی کے گٹھ جوڑ میں خفیہ ہاتھ بری طرح بے نقاب ہوا ہے اور قابل مذمت ٹھہرا ہے۔ عدالتی فیصلوں پر جانبداری اور بے انصافی کی بوچھاڑ اپنی جگہ لیکن کل کلاں ان کے بارے میں تاریخ کیا کہتی ہے، فی الحال فتویٰ دینا قبل از وقت ہے کیونکہ ابھی تو یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس کا انجام دیکھنا ابھی باقی ہے۔ موجودہ عدالتی فیصلوں سے جسٹس منیر کے فیصلے کی بو سونگھنے والے اور بار بار ’’منیری‘‘ فیصلے کے انجام کی یاد دلانے والے بھول جاتے ہیں کہ وہ فیصلہ پہلی دستور ساز اسمبلی کے خلاف تھا اور دستور ساز اسمبلی کو دستور بنائے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ فیصلہ کسی شخص، لیڈر یا سیاستدان کے خلاف نہیں تھا۔ گورنر جنرل کے اقدام نے ملک کو ایک گہرے خطرناک، آئینی بحران میں جھونک دیا تھا اور جسٹس منیر نے گورنر جنرل کے اقدام پر مہر تصدیق ثبت کر کے اس آئینی بحران کو مزید گہرا کردیا تھا۔ میرے حافظے کے مطابق میں نے شاید 1963ء میں پاکستان ٹائمز میں جسٹس منیر ریٹائرڈ کا مضمون پڑھا تھا جس میں اس نے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے یہ تسلیم کیا تھا کہ میرا فیصلہ سیاسی تھا، آئینی اورقانونی نہیں تھا۔ محض تقابل کے لئے یہ یاد رکھیں کہ منیر کے فیصلے کے برعکس موجودہ عدالتی فیصلوں نے ملک میں کوئی آئینی بحران پیدا نہیں کیا، آئین کے مطابق سیاسی تبدیلی ظہور پذیر ہوئی ہے اور برسراقتدار جماعت نے دوسرا وزیراعظم منتخب کرلیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جانے والے اس طرح اچانک لگائے گئے زخم کو کبھی بولتے ہیں نہ معاف کرتے ہیں۔ بات یہاں تک محدود رہے تو قوت برداشت سے کام لیا جاسکتا ہے لیکن جب سامنے نظر آرہا ہو کہ ابھی تو فقط آغاز ہوا ہے، ابھی تو کئی مزید طوفانوں نے آنا ہے، کئی الزامات نے جرائم بننا ہے اور گھیرا تنگ ہونا ہے تو پھر جوابی حملے اور طبل جنگ بجانے کے علاوہ کون سا راستہ باقی بچتا ہے۔ جب انصاف سے دم گھٹنے لگے تو اسے انتقام ثابت کرنا مجبوری ہوتی ہے۔ آئینی عدالت کے مقابلے میں عوامی عدالت لگانا ہی بچائو کا راستہ ہوتا ہے کیونکہ بالآخر سیاست کی جان جمہور کے طوطے میں قید ہوتی ہے۔ اگر تصادمی اور احتجاجی رستہ اختیار نہ کیا جائےتو یہ خدشہ بہرحال ہوتا ہے کہ کہیں جمہور بھی عدالتی فیصلوں سے متاثر نہ ہو جائیں۔ کہا جارہا ہے کہ جسٹس کھوسہ نے بحیثیت وکیل آئین کی شقوں 62/63(صادق و امین) پر تنقیدی مضامین لکھے تھے۔ بلاشبہ لکھے تھے لیکن کیا ان شقوں کو آئین سے نکال دیا گیا۔ جب تک یہ شقیں آئین میں موجود ہیں ان پر عمل کرنا اور ان کی خلاف ورزی کے خلاف فیصلے دینا عدلیہ کی مجبوری اور قانونی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ وہ ان کی ذاتی رائے تھی۔ یہ جج کا فیصلہ ہے جسے آئین پر عمل درآمد کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ وہ تلخ اور کتابی سچ ہے جسے موجودہ متحارب اور تصادم کی فضا میں پے در پے حملوں سے مجروح بلکہ تہ تیغ کیا جارہا ہے۔ جج ملکی حالات اور سیاسی تقاضوں کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ کرے تو اسے نظریہ ضرورت کا ’’بچہ‘‘ قرار دے کر نفرت سے دھتکار دیا جاتا ہے اور اگر وہ آئین کے مطابق فیصلہ کرے تو قانونی موشگافیوں کی آڑ میں اس پر انتقام اور ذاتی عنادکا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
تاریخ میں امر کون ہوتا ہے، تاریخ کسے مظلوم اور کسے ظالم قرار دیتی ہے، کسے مجرم اور کسے منصف قرار دیتی ہے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا بہت ہی قبل از وقت ہے کیونکہ اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ کتنے الزامات دوست درست ہوتے ہیں، کتنے الزامات کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آتے ہیں۔ فی الحال تو ایک واویلا، آہ و بکا اور مظلومیت کی فضا پیدا کرنا مقصد ہے تاکہ ہمدردی کا ووٹ بھی ملے اور آنے والے متوقع فیصلوں پر شکوک و شبہات کی خاک بھی ڈالی جاسکے۔ پاکستان کی تاریخ کوئی طویل داستان نہیں۔ صرف ستر سالوں کی روداد بلکہ آئینہ ہے جس میں سیاستدانوں، حکمرانوں اور عدلیہ سمیت سب کے چہرے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اگر کرپشن، دولت سازی، منی لانڈرنگ، آمدن سے زیادہ اثاثوں اور بیرون ملک دولت، منتقلی کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہماری تاریخ میں یہ پہلا نمایاں اور ’’بڑا‘‘ کیس ہے۔ ہماری تاریخ میں کرپشن کا پہلا ’’شہید‘‘ کھوڑو تھا جسے کرپشن کے ٹھوس شواہد کی بنا پر ڈسمس کیا گیا اور پھر ٹرائل کے لئے عدالتی ٹریبونل بنایا گیا۔ کھوڑو نے اپنے خلاف الزامات کو سیاسی رنگ دینے کے لئے اسے انتقامی کارروائی قرار دیا کیونکہ اس نے کراچی کو دارالحکومت بنانے کی مخالفت کی تھی۔ تاریخ کھوڑو کو مجرم اور اس کی سیاسی مہم جوئی کو بے جواز قرار دے چکی ہے۔ سہروردی اور فیروز خان کا ذکر کرنے والے یہ وضاحت نہیں کرتے کہ ان پر دولت سازی، کرپشن وغیرہ کے الزامات نہیں تھے بلکہ اختیارات کے ناجائز استعمال کے بے بنیاد الزامات گھڑے گئے تھے۔ حکمران بھی فوجی، عدالتیں بھی فوجی۔ البتہ قابل غور بات ہے کہ ان سابق وزراء اعظم نے عدلیہ کو نشانہ بنانے کی بجائے حکومتی پالیسیوں کو نشانہ بنایا۔ بالآخر ایوبی مارشل لاء کو اپنے ان اقدامات کی سزا بھگتنا پڑی۔ تاریخ کا ایک اصول نمایاں ہے کہ مخلص سیاستدان سخت جان ہوتا ہے، اسے سیاسی یا عدالتی موت مارنا آسان نہیں ہوتا۔ دوئم یہ سہولت اور آسانی صرف سیاستدانوں کو دستیاب ہے کہ وہ اپنے خلاف بڑے سے بڑے الزام کو سیاسی و انتقامی کارروائی قرار دے دیں، یہ سہولت عام شہری کو میسر نہیں۔ سیاستدان قتل کروائے یا خزانہ چوری کرے، اقتدار کو ذاتی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرے یا قومی وسائل برباد کرے، منی لانڈرنگ، اقربا پروری، کمیشن خوری کرے یا بے نامی جائیدادیں بنائے اور ٹیکس چوری کرے یا مجرموں اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرے وہ ہر جرم اور الزام کی بازپرس پر انتقامی کارروائی کا ڈھول بجا کر اور مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر نہ صرف عوامی نگاہوں میں سرخرو ہو جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات بچ نکلتا ہے۔ میرے علم کے مطابق یہ ’’موجیں‘‘ صرف پاکستانی سیاست میں دستیاب ہیں دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں۔ پاکستانی سیاست کی یہ ادائیں نہایت دلفریب ہیں۔

تازہ ترین