• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سزائے موت پکے دہشتگردوں کو کم عام مجرموں کو زیادہ ملی، فرحت اللہ بابر

Todays Print

اسلام آباد(آئی این پی)پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات بشمول سیاسی پارٹیوں، وکلاء، مذہبی سکالرز، دانشور، میڈیا اور پروفیسرز پر مشتمل ایک وسیع بحث و مباحثہ کروایا جائے کہ پاکستان کے انصاف کے نظام میں موت کی سزا ہونی چاہیے یا نہیں ،ہمارے قانونی نظام میں قانون کا جھکائو امیر اور طاقتور لوگوں کی جانب ہے، سزائے موت پر پابندی اٹھنے کے تین سال بعد اب وقت آگیا ہے کہ انسداد دہشتگردی قوانین، فوجی عدالتوں اور گوانتا نامو بے جیل جیسی سزائیں دہشتگردی کے خلاف لڑنے میں کس حد تک کارآمد ثابت ہوئی ہیں۔وہ منگل کو یہاں مقامی ہوٹل میں جسٹس پراجیکٹ آف پا کستا ن کی جانب سے منعقد کئے جانے والے سیمینار میں خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک گزشتہ تین سالوں میں تقریباً 500 لوگوں کو سزائے موت دی گئی ہے اور اس میں سے 80فیصد سے زیادہ عام مجرم تھے اور پکے دہشتگرد نہیں تھے جبکہ فوجی عدالتیں قائم کرتے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ موت کی سزا صرف پکے دہشتگردوں کی دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ سکیورٹی پر چلنے والی ریاست میں عوام کی بھلائی اور حقوق کوئی معنی نہیں رکھتے اور جلدی میں جس طرح ہم نے سزائے موت پر عمل کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست عوام کی زندگی کی قدر نہیں کرتی اور اس بات سے قطعی بے فکر ہے کہ شہری کس طرح مرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں دو بھائیوں کو سپریم کورٹ نے تقریباً 15سالوں بعد قتل کے الزام سے بری کر دیا جبکہ انہیں سزائے موت کی سزا ہو چکی تھی اور اس سزا پر عملدرآمد ہوگیا تھا۔ انہوں نے اسکالرز سے پوچھا کہ وہ اس قسم کے انصاف کے قتل کی منطق کس طرح پیش کرسکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اسلام کے اسکالرز کے مطابق صرف دو جرائم میں موت کی سزا دی جا سکتی ہے جبکہ اس وقت 27 قسم کے جرائم میں پاکستان میں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان جرائم پر نظرثانی نہ کر سکیں جن کی سزائے موت مقرر ہے۔ انہوں نے کہا کہ سول ایڈمنسٹریشن ریگولیشن 2011ءپر عملدرآمد پر بھی تحفظات ہیں۔ اس ریگولیشن کو 2008ءتک موثر بہ ماضی بنایا گیا ہے تاکہ سکیورٹی ایجنسیاں ان لوگوں پر کھلے عام مقدمات بنا سکیں جو کے پی کے علاقے پاٹا میں دو سال سے زیرحرا ست ہیں تاہم آج کسی کو یہ نہیں معلوم کہ حراستی سنٹروں میں کتنے لوگ رکھے گئے ہیں، ان پر کیا الزامات ہیں، ان میں سے کتنے لوگ ان مراکز میں وفات پا چکے ہیں اورکتنے لوگوں پر کس عدالت میں کس الزام کے تحت مقدمات چلائے جا رہے ہیں؟

تازہ ترین