• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیم کا معاملہ مردم شماری کے نتائج پر پارلیمانی جماعتوں کے اختلافات اور تحفظات کے باعث جس تعطل کا شکار ہوگیا تھا ، اس نے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے ملک کے تمام جمہوریت پسند حلقوں میں بجا طور پر سخت فکرمندی پیدا کررکھی تھی کیونکہ اس کا نتیجہ انتخابات کے غیرمعینہ مدت تک ٹل جانے اور ایک بار پھر ایک لمبی مدت کے لیے کسی غیر جمہوری حکومت کے تسلط کی شکل میں برآمد ہوسکتا تھا جبکہ یہ تجربہ قوم کو ہمیشہ مشکلات کی نئی دلدلوں میں پھنسانے کا سبب بنا ہے،لیکن ہماری سیاسی قیادت نے غیر معمولی چیلنجوں سے دوچار ہونے کے باوجوداس آئینی بحران کو انتہائی فراست کے ساتھ افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرکے، جس کے آخری مرحلے میں گزشتہ روز قومی اسمبلی میں انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور ہوگئی، ثابت کردیا ہے کہ قومی مسائل کے حل کا درست مقام پارلیمنٹ اور درست راستہ جمہوری طریق کار ہی ہے۔اس بل کے علاوہ قومی اسمبلی کے اسی اجلاس میں انتخابی اصلاحات ایکٹ2017ء میں نئی ترمیم کا بل بھی اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا جس کی رو سے ختم نبوت سے متعلق تمام آئینی شقیں حسب سابق برقرار رہیں گی ۔ اس طرح ایک اور حساس اور ا ہم معاملہ بھی پارلیمنٹ میں بخیرو خوبی طے پاگیا۔اس کے بعد اس حوالے سے اسلام آباد میں ایک گروپ کے دھرنے کے مزید جاری رکھے جانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا ہے۔نئی انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے دوتہائی اکثریت درکار تھی جو342 کے ایوان میں 228 بنتی ہے۔ تاہم اجلاس میں موجود ایک کے سوا تمام 242 ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دے کر آئینی بحران کے حل کے لیے اتحاد کا خوبصورت مظاہرہ کیا۔مردم شماری کے نتائج پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کے لیے، جن کا اظہار چند روز قبل قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس آئینی ترمیم کے پیش کیے جانے پر اس کے باوجود کیا گیا تھا کہ اس سے پہلے قومی اسمبلی کے پارلیمانی لیڈروں کے اجلاس میں ان دونوں جماعتوں نے اس بارے میں اتفاق کرلیا تھا،وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا تھا اور اس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے مردم شماری کے نتائج پر تحفظات دور کرنے کے لیے ایک نہایت معقول طریق کار طے کرکے اس اختلاف کا حل تلاش کرلیا تھا جس کے مطابق چاروں صوبوں میں تین ماہ کے اندر مشینوں کے ذریعے منتخب کیے گئے ایک فی صد بلاکس میں شماریات بیورو کے بجائے کسی اور ادارے سے دوبارہ مردم شماری کراکے ان کے نتائج کا موجودہ نتائج سے موازنہ کیا جائے گا تاکہ حکومت سندھ ، پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم سمیت ان تمام جماعتوں کے تحفظات کا ازالہ ہوسکے جن کی جانب سے مردم شماری پر عدم اطمینان ظاہر کیا گیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن نئی انتخابی حلقہ بندیوں کا کام آئینی ترمیم کی منظوری کے فوراً بعد شروع کردے گا۔قومی اسمبلی میں منظور کیے گئے بل میں یہ شق بھی اسی طرح شامل ہے تاہم یہ بات وضاحت طلب ہے کہ اگر نتائج میں مطابقت نہ ہوئی اور پچھلی مردم شماری ناقابل اعتبار قرار پائی تو کیا ہوگا؟اس بارے میں یقیناًسوچا گیا ہوگا لیکن اسے سامنے لانا بھی ضروری ہے تاکہ قوم اس بارے میں پوری طرح مطمئن ہوسکے کہ مردم شماری کے نتائج کا معاملہ اب دوبارہ کسی تعطل کا سبب نہیں بنے گا۔جمہوری نظام میں پارلیمان قومی یکجہتی میں جو کلیدی کردار ادا کرتا ہے، متفقہ آئین کی تشکیل سے لے کر حالیہ قانون سازی تک پاکستان میں بھی بارہا اس کا بھرپور مظاہرہ ہوچکا ہے ،اس کے باوجود ہمارے منتخب عوامی نمائندوں کا طرز عمل اکثر یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے جبکہ یہ ان کی لازمی ذمہ داری ہے۔گزشتہ روز بھی انتہائی اہم قومی مسئلے کے پارلیمنٹ میں زیر غور ہونے کے باوجودحکمراں جماعت کے ارکان کی ایک بڑی تعداد کا اجلاس سے غیرحاضر رہنا بہت ہی قابل گرفت معاملہ ہے اور اس سلسلے میں ضابطے کی کارروائی ضروری ہے۔

تازہ ترین