• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کی جانب سے پاکستان سے’ ڈومور ‘کے بے معنی تقاضے کی حمایت کرتے ہوئے کابل حکومت بھی طالبان کے پے درپے حملوںاورافغان سکیورٹی فورسز کے بڑھتے ہوئےجانی نقصانات پرپاکستان کومطمئن کررہی ہے اوراس حقیقت کویکسر نظر انداز کررہی ہے کہ افغان سرزمین سے آئے روزدہشت گرد پاک فوج کی چوکیوں پرحملے کررہے ہیں جن کے نتیجے میں اگرچہ حملہ آوروں کوشدید جانی نقصان اٹھانا پڑتا ہے مگر ہمارے جوان بھی شہید یازخمی ہورہے ہیں ۔دہشت گردوں کے یہ وہ گروہ ہیں جنہوں نے پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب اورردالفساد کے بعد یہاں سے فرارہوکر افغانستان میں پناہ لےرکھی ہے۔ پاکستانی علاقے میں بلاامتیاز کارروائی کے دوران حقانی نیٹ ورک سمیت عسکریت پسندوں کے تمام ٹھکانے تباہ کئے جاچکے ہیں۔اب یہاں ان کی کوئی پناہ گاہ موجود نہیںاگر امریکہ اورکابل کے دعوؤںکے مطابق کوئی ٹھکانہ موجود ہے اور اس کی نشاندہی کی جائے۔توپاکستان اس کے خلاف خود کارروائی کرنے کو تیار ہےمگر ایسے کسی ٹھکانے یاکمین گاہ کے بارے میں کوئی معلومات مہیا نہیں کی جاسکیں۔اس کے برخلاف پاکستان واضح طور پر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ملافضل اللہ کی تحریک طالبان پاکستان اوردوسرے گروہوں کی موجودگی کے ثبوت فراہم کررہاہے جن کے خلاف افغان فوج یانیٹو نے آج تک کوئی کارروائی نہیں کی ۔دراصل افغانستان کاچالیس فیصد سے زائد علاقہ طالبان کے قبضے میں ہے جسے نیٹو اورافغان فوج چھڑوانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔یہ علاقہ عسکریت پسندوں کی جنت ہے اسے چھوڑکر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جہاں پاک فوج سے چھپنے کی ایک بھی جگہ باقی نہیں دہشت گردوں کاپناہ لینا قطعی ناقابل فہم ہے۔اتوار کوبھی افغان صوبہ فراہ میںطالبان نے تین پولیس چوکیوں پرحملہ کرکے انہیں آگ لگا دی۔افغان حکومت اورطالبان کے ترجمانوں کے مطابق اس حملے میں گیارہ افغان اہلکار ہلاک چار لاپتہ اورمتعدد زخمی ہوگئے،8جنگجو بھی مارے گئے ۔درحقیقت حالیہ چند مہینوں سے افغان طالبان نے قندھار اورفراہ کے کئی علاقوں میں سرکاری فوج ہی نہیں نیٹو کے فوجی کیمپوں پربھی حملے کئے ہیں،کابل حکومت خفت مٹانے کےلئے ہرایسی کارروائی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالتی ہے اورامریکہ کو پاکستان پردباؤ ڈالنے کےلئے اکساتی ہے۔پاکستان نے دہشت گردوں کی نقل وحرکت روکنے کے لئے اپنے طورپرپاک افغان سرحد پرآہنی باڑھ لگانا شروع کررکھی ہے اورافغانستان کو بھی بارڈر مینجمنٹ کے تحت اپنی سرحد کے اندر ایسی ہی باڑھ لگانے کی تجویز دی ہے لیکن کابل حکومت نے اسے رد کردیا۔امریکہ بھی دہشت گردوں کو روکنے کے اس انتظام کی حمایت سے گریز کررہاہے۔افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کےلئے پاکستان رضاکارانہ طورپرتمام ممکنہ اقدامات بروئے کار لارہاہے لیکن افغانستان تعاون نہیں کرتا۔حالانکہ افغانستان اورپاکستان ہمسائیگی کے علاوہ اسلامی اخوت کے رشتوں میں بھی منسلک ہیں اوردونوں کی بقا اورامن ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون سے وابستہ ہے۔پاکستان نے طالبان اورکابل حکومت میں مفاہمت کے لئے بے شمار کوششیں کیں اورانہیں مذاکرات کی میز پر بھی بٹھایا مگر کابل نے انہیں سبوتاژ کردیا۔افغانستان میں بدامنی کے علاوہ سیاسی بحران بھی زور پکڑ رہاہے، 2018میں وہاں عام انتخابات ہونے والے ہیں جبکہ2019میںصدارتی انتخاب بھی ہوگا۔طالبان کچھ عرصہ سے عسکریت پسندی کی جس حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ملک میں سیاسی عدم استحکام سے بھی فائدہ اٹھائیں گے اس لئے وقت کاتقاضاہے کہ پاکستان افغانستان اورامریکہ اعلیٰ ترین سیاسی سطح پر سہ فریقی مذاکرات کاانتظام کریں جن میں صدور وزرائے اعظم اورکابینہ کی سطح کے مدبرین شریک ہوں۔افغانستان کی صورت حال جس جمود کاشکار ہے اسے توڑنے کایہی واحد راستہ اب باقی رہ گیاہے۔ تینوں ممالک طالبان کااعتماد بحال کریں توافغان مسئلے کاقابل عمل حل نکل سکتاہے۔

تازہ ترین